For Adults ~ Vital Pakistan Online Jobs Pakistan Family Network - Ecurrency Exchangers Pak Rupees - News Updates

For Adults


اسلام و علیکم ۔ یہ صفحہ پاکستان میں تعلیمی سطح بلند کرنے کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اگر آپ اپنا مواد اس صفحہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو بذریعہ ای میل اپنا اردو میں لکھا ہوا مواد، اپنی ایک عدد تصویر اور مکمل نام اور پتہ کے ساتھ بھیج ڈالیں۔ مواد اصلاحی اور سبق آموز ہوا تو ادارہ اس صفحہ کی تزیئن میں ضرورشامل کرے گا۔

لوڈ شیڈنگ اور اجتجاج کا درست طریقہ
پہلے تو پاکستان کی سوئی ہوئی قوم باہر نکلتی ہی نہیں، اگر نکل آئے تو کیا ہوتا ہے؟
روڈ بلاک کردیئے
اشارے توڑ دیئے
عام شہریوں کی گاڑیاں جلا دیں
واپڈہ کے دفاتر پر حملے کردیئے
بنک جلا دیئے
کسی غریب کی ریڑہی توڑ دی
کسی غریب کی واحد ملکیت پرچون کی دکان جلا دی
غرض یہ کہ جتنا ہوسکتا ہے ملک کی املاک کا نقصان کردیا
سوچنے کی بات ہے عقلمندانِ پاکستان اس انداز سے اجتجاج کرنے کے بعد اپنے ہی ادا کردہ ٹیکس سے یہ نقصان پورا بھی کرتے ہیں۔
واپڈا والے ملازمین وہی کرتے ہیں جو انھیں حکومت کی طرف سے حکم ملتا ہے۔ واپڈا والے بذاتِ خود لوڈ شیڈنگ کم یا ذیادہ نہیں کرسکتے،
گزارش ہے اے عقلمندانِ پاکستان اس طرح اپنی ہی املاک ، واپڈا کے دفاتر ، بینک ، ادارے اور گاڑیاں جلا کر اپنے وطن کا نقصان نہ کریں۔
اجتجاج کا درست طریقہ یہ ہے کہ سب متاثرہ لوگ مل کر اپنے شہر کے ایم این اےاور ایم پی اے کے گھروں کا گھیراو کریں اور ان سے کہیں کہ جب بجلی صرف 6 گھنٹے آرہی ہے، سی این جی بند ہے، کھانے کی سبزی 200 روپے کلو ہوگئی ہے تو اسمبلی میں بیٹھے جھک مار رہے ہو؟؟؟ تمہاری یہ سیٹ ہم لوگوں کے مرحونِ منت ہے، اور خدمات دینے اور عوامی سہولیات کو بڑھانے کے لیئے اور مسائیل کے حل کے لیئے دی گئی ہے نہ کہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر یو پی ایس پر بجلی کے مزے اڑانے اور انٹرٹینمنٹ چینل دیکھنے کے لیئے دی گئی ہے۔
"اگر ہمارے مسائل کا حل نہیں کرسکتے تو پھر فوراً استعفیٰ دو۔"
اگر زرداری تک رسائی نہیں کرسکتے تو اپنے شہر کے ایم این اے ، ایم پی اے کو الٹا لٹکا دو، چاہے کسی بھی پارٹی کا ہو، اسمبلیوں میں بیٹھے یہی آدم خوردرندے ہمارے ٹیکسوں اور پیسوں سے ہمارا ہی خون چوس رہے ہیں۔ یہی ہمارے اصلی دشمن ہیں۔ دوستوں وطن پرستو! اس پیغام کو آگے سے آگے پھیلاو تاکہ کسی نہ کسی سطع سے کوئی نتیجہ نکل سکے۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں اس تحریک میں پہلا قطرہ ِ خون دینے کو تیار ہوں۔
خیر اندیش  کلیم راجہ
25 مئی 2012
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

نکل جاو کام سے!(بہت اہم)
والاس جونسن نامی ایک امریکی  نوجوان نے اپنی زندگی کے حسین ترین ایام ایک ورکشاپ میں لکڑیاں چیرنے میں گزار دیئے۔ اسکی جوانی کی بے محار طاقت پر مشقت اور سخت ترین کام کر کے کچھ زیادہ ہی تسکین پاتی تھی۔   اور آرے پر لکڑیاں چیرتے چیرتے اسکی زندگی کے چالیس سال گزر گئے ۔
یہ مشقت والا کام کرتے ہوئے والاس جونسن ہمیشہ اپنے آپ کو اس آرے کی مشین پر بہت اہم فرد محسوس کرتا تھا کہ ایک دن آرے کے مالک نے اسے بلا کر ایک تشویشناک خبر دیتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں ابھی اور اسی وقت   کام سے نکال رہا ہوں اور کل سے ادھر مت آنا۔
والاس  کیلئے یہ خبر کسی مصیبت سے کم نہ تھی۔ وہ وہاں سے نکل کر خالی الذہن اور پریشان حال سڑکوں پر نکل پڑا۔ دماغ کسی منصوبہ بندی سے خالی اور دل بار بار کچوکے لگاتا ہوا کہ زندگی کے اتنے  حسین سال ایسے  ضائع  ہوگئے؟ پریشانی سے رونا بھی نہیں آ رہا تھا اور دل تھا  کہ اس نوکری سے چلنے والی گھر کی روزی روٹی کا سوچ سوچ کر  ڈوبا جا رہا تھا۔  اور ایسا ہوتا بھی کیوں ناں؟ اسکی روزی کا اکلوتا دروازہ اس پر بند ہو گیا تھا، زمین اس پر تنگ ہو  کر رہ گئی تھی اور آسمان منہ موڑ گیا تھا۔ اُسے ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔
جو چیز اُسے سب سے زیادہ پریشان کر رہی تھی کہ وہ کس منہ سے جا کر اپنی بیوی کو بتائے کہ اس کے پاس گھر کے  گزارے کیلئے جو نوکری تھی وہ جاتی رہی تھی۔ مگر ناچار شام کو لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اُسے گھر لوٹناہی پڑا۔
والاس کی بیوی نےوالاس سے بر عکس نوکری چھوٹنے کا صدمہ نہایت تحمل سے سُنا اور والاس جونسن  کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا: کیوں ناں ہم اپنے   گھر کو رہن کر قرضہ اُٹھائیں  اور کوئی تعمیرات کا کام شروع کریں؟
اور اُس نے واقعی ایسا ہی کیا، اپنے گھر کو رہن رکھ کر کچھ قرضہ اُٹھایا اور اُس پیسے سے دو چھوٹے گھر بنائے۔ اس  پہلے تعمیراتی کام میں اُسکی اپنی محنت اور  مشقت زیادہ شامل تھی۔ یہ دو گھر اچھے پیسوں سے بکے تو اُسکا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ اور پھر تو چھوٹے گھروں کے پروجیکٹ اُسکی پہچان بن گئے۔  اور اپنی محنت اور قسمت کے بل بوتے پر صرف پانچ سال کے مختصر عرصے  میں ہی والاس ایک ایسا مشہور   ملیونیر والاس جونسن  بن چکا تھا جس نے دنیا کے مشہور ترین ہوٹلوں کے سلسلے ہولیڈے اِن  کی بنیاد رکھی۔ اس اسکے بعد تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا اور ہولیڈے اِن ہوٹل دُنیا کے کونے کونے میں چھا گئے۔
یہ شخص اپنی ڈائری میں ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتا تھا کہ : اگر آج مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ اُس آرا ورکشاپ کا مالک، جس نے نے مجھے کام سے نکالا تھا، کہاں رہتا ہے تو میں جا کر اُسکا اپنے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کروں۔ کیونکہ اُس نے میرے لیئے ایسی صورتحال پیدا کر کے بظاہر تو ایسی  دردناک کیفیت  پیدا کر دی تھی جس نے میرے ہوش و حواس  ہی چھین لیئے تھے، مگر آج میں نے یہ جانا ہے کہ اگر اللہ  نے مجھ پر ایک دروازہ بند کیا تھا تو  اُسکے بدلے ایک نیا راستہ بھی تو کھول دیا تھا جو کہ میرے اور میرے خاندان کیلئے زیادہ بہتر ثابت ہوا۔
پیارے دوست؛ جب کبھی بھی کسی ناکامی کا سامنا ہو جائے تو اُسے اپنا اختتام نا سمجھ لو۔ بس ذرا ہمت اور حوصلے کے ساتھ  زندگی کی عطا کردہ دوسری خوبیوں کے ساتھ سوچو اور ایک نئی ابتدا کرلو۔
جب ہمارے اختیار میں ہو کہ ہم اس سے بہتر کچھ کر سکتے ہوں تو پھرزندگی کا اختتام  اس طرح روتے اور منہ بسورتے تو ہرگز نہیں ہونا چاہیئے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرہ –آیۃ 216)

خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: تحریک اردو
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اماں بھائی کب مرے گا؟
عرصہ ہوا ایک ترک افسانہ پڑھا تھا یہ دراصل میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتل گھرانے کی کہانی تھی جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ آخر اسی حالت میں ایک دن بچوں کو یتیم کر گیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ خانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر نکل کر سامنے والے سفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے۔ جب بھی قدموں کی چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔
ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے کچھ روٹی کے سوکھے ٹکڑے ڈھونڈھ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی "تلاش" کے بعد دو چار چیزیں نکل آئیں جنھیں کباڑیے کو فروخت کر کے دو چار وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہو گئے تو پھر جان کے لالے پڑ گئے۔ بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا۔ ساتویں روز بیوہ ماں خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹ کر محلے کی پرچوں کی دکان پڑ جا کھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نے ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نا صرف صاف انکار کر دیا بلکہ دو چار باتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔
ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اور اوپر سے مسلسل فاقہ، آٹھ سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بکھر میں مبتلا ہو کر چارپائی پر پڑ گیا۔ دوا دارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ نہی تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جب کہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبا رہی تھی۔ اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی
"اماں بھائی کب مرے گا؟"
ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا "میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟"
بچی معصومیت سے بولی

"ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں!"

اگر ہم اپنے پاس پڑوس میں نظر دوڑائیں تو اس طرح کی ایک چھوڑ کئی کہانیاں بکھری نظر آئیں گی۔ بہت معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں ہمارا معاشرہ مردہ پرست ہو چکا ہے۔ زندگی میں کوئی نہی پوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی گھی لگا دیا جاتا ہے تا کہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں۔ غالبا منٹو نے لکھا ہے کہ ایک بستی میں کوئی بھوکا شخص آ گیا، لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا مگر کسی انے کچھ نہی دیا۔ بیچارہ رات کو ایک دکان کے باہر فٹ پتہ پر پڑ گیا۔ صبح آ کر لوگوں نے دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ اب "اہل ایمان" کا "جذبہ ایمانی" بیدار ہوا، بازار میں چندہ کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دیگیں چڑھا دی گئیں، یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا "ظالمو! اب دیگیں چڑھا رہے ہو، اسے چند لقمے دے دیتے تھ یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نا مرتا"۔
پچھلے دنوں ایک تاجر نے ایک مزار پر دس لاکھ روپے مالیت کی چادر چڑھائی، جب کہ مزار کے سامنے کے محلے میں درجنوں ایسے بچے گھوم رہے ہوتے ہیں جنہوں نے قمیض پہنی ہوتی ہے تو شلوار ندارد اور شلوار ہے تو قمیض نہی۔ حضرت مجدد الف ثانی فرمایا کرتے تھے کہ تم جو چادریں قبر پر چڑھاتے ہو اس کے زندہ لوگ زیادہ حقدار ہیں۔ ایک شخص رکے ہوئے بقایاجات کے لیے بیوی بچوں کے ساتھ مظاہرے کرتا رہا، حکومت ٹس سے مس نا ہوئی، تنگ آ کر اس نے خود سوزی کر لی تو دوسرے ہی روز ساری رقم ادا کر دی گئی۔ اسی طرح ایک صاحب کے مکان پڑ قبضہ ہو گیا، بڑی بھاگ دوڑ کی مگر کوئی سننے کو تیار نہی ہوا، اسی دوران دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، پولیس نے پھرتی دکھائی اور دوسرے ہی دن مکان سے قبضہ ختم کروا دیا۔ فائدہ؟ کیا اب اس مکان میں اس کا ہمزاد آ کر رہے گا؟
کیا ہمارا "جذبہ ایمانی" صرف مردوں کے لیے رہ گیا ہے۔ اپنے ارد گرد موجود زندوں کا خیال رکھیے۔

خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: تحریک اردو
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

پہلے محرکات دیکھ لیں پھر فیصلہ کریں
 ابتدائی سکول کی اُستانی نے ایک بچے سے نہایت ہی شفقت اور پیار کے ساتھ سوال پوچھا ؛  مُنے اگر میں تمہیں ایک سیب دوں، پھر ایک اور سیب دوں اور پھر ایک اور بھی سیب دوں تو تمہارے پاس کل کتنے سیب ہو جائیں گے؟بچے نے اپنی انگلیوں پر گن کر اُستانی سے کہا: چار
اتنی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ پوچھے گئے سوال کا غلط جواب ملنے پر اُستانی کے چہرے پر ناگواری کے تأثرات کا ظاہر ہونا تو فطری عمل تھا ہی مگر وہ اپنے ناراضگی کے تأثرات کو بھی چھپائے بغیر نہ  رہ سکی۔اس سیدھے سے سوال کا جواب تین سیب بنتا تھا جو کہ بچہ نہیں بتا پایا تھا۔ 
اُستانی نے یہ سوچ کر کہ شاید وہ اپنا سوال ٹھیک سے نہیں بتا پائی یا پھر وہ بچہ ٹھیک طرح سے اُسکا سوال نہیں سمجھ پایا، اُس نے اپنا سوال ایک بار پھر دہراتے ہوئے بچے سے پوچھا، مُنے میرا سوال غور سے سُنو، اگر میں تمہیں ایک سیب دوں،  پھر ایک اور سیب دوں، اس کے بعد ایک اور بھی سیب دوں تو کل ملا کرتُمہارے پاس کتنے سیب ہو جائیں گے؟
بچہ اُستانی کے چہرے پر ناگواری اور غصہ دیکھ چکا تھا، اور اب اُس کی خواہش تھی کہ کسی طرح اپنی اُستانی کے چہرے پر دوبارہ وہی مُسکراہٹ دیکھےجس میں رضا اور شفقت کا احساس ہو۔ بچے نے اس بار زیادہ توجہ اور انہماک کے ساتھ اپنی انگلیوں پر گننا شروع کیا۔ اس بار بچے نے پورے یقین اور بھروسے کے ساتھ کہا؛ ٹیچر-  چار سیب۔
پہلے تو اُستانی کے چہرے پر غصے اور ناراضگی کے محض تأثرات ہی تھے مگر اس بار تو واقعی غصہ اور غضب دکھائی بھی دے رہا تھا۔ اُستانی نے سوچا کہ دو باتیں ہو سکتی ہیں؛ یا تو اُسکا شمار ناکام اور برے اساتذہ میں ہونا چاہیئے جو طلباء کو اپنا پیغام صحیح طریقے سے پہنچانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے یا پھر یہ بچہ انتہائی کند ذہن اور غبی ہے۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اُستانی نے سوچا کہ وہ کیوں نا اپنا سوال بچوں کے کسی اور پسندیدہ پھل کا نام لیکر کرے۔ اس بار اُستانی نے کہا؛ مُنے اگر میں تمہیں ایک سٹرابیری دوں، پھر ایک اور سٹرابیری دوں اور پھر ایک اور سٹرابیری دوں تو تمہارے پاس کل ملا کر کتنی سٹرابیری ہو جائیں گی؟بچے نے ایک بار اپنی انگلیوں پر گنتی کی اور جواب دیا؛ تین۔ اُستانی کے چہرے پر یہ سوچ کر ایک مُسکراہٹ آگئی کہ وہ جس محنت، توجہ اور مُحبت کے ساتھ بچوں کو پڑھاتی ہے وہ محنت ضائع نہیں جا رہی۔مگر اس کے ساتھ ہی ایک خیال یہ بھی آیا کہ  وہ کیوں نا ایک بار پھر اپنا پہلے ولا سوال دوبارہ پوچھ لے۔مُنے کو سٹرابیری کا جواب صحیح دینے پر شاباش دیتے ہوئے  اُس نے اپنا سوال دہرایا؛ مُنے اب اگر میں تم کو ایک سیب دوں، پھر ایک اور سیب دوں اور پھر ایک اور سیب دوں تو کل ملا کر تمہارے پاس کتنے سیب ہو جائیں گے؟
مُنے نے ملنے والی شاباش اور اُستانی کے دوستانہ رویہ سے شہ پا کر قدرے پر جوش طریقہ سے جواب دیا؛ مِس،  چار سیب ۔ اِس بار اُستانی سے برداشت نہ ہو سکا اور اُس نے غصے کو دباتے ہوئے اونچی آواز میں پوچھا، مجھے بتاؤ کس طرح سے یہ سیب چار بن جائیں گے؟ مُنے نے اُستانی کے درشت رویہ سے سہم کر ڈرتے ہوئے جواب دیا؛ مس ا ٓج صبح میری امی نے بھی مجھے ایک سیب دیا تھا جو میرے بستے میں پڑا ہے  اور اب اگر آپ مجھے تین سیب دینا چاہتی ہیں تو اس طرح سے کل ملا کر میرے پاس چار سیب ہو جائیں گے۔
اس  چھوٹے سے  قصے میں بھی حکمت کی چند باتیں پوشیدہ ہیں  اور وہ یہ ہیں کہ؛
ہمیں چاہیئے کہ کسی بھی معاملے میں اُس وقت تک کوئی حتمی رائے قائم نا کریں جب تک اُس معاملے کے پس منظر اور محرکات کے بارے میں نا جان لیں۔
اپنے خیالات، رویئے اور عقائد کو کم از کم اتنا لچکدار ضرور رکھیں کہ دوسروں کے نقطہ نظر کو قبول کر سکیں۔
دوسروں کے نقطہ نظر کو جان کر کسی معاملہ میں فیصلہ کرتے وقت غلطیوں کا امکان کم سے کم رہتا ہے۔ اگر ہم نے اپنے فیصلوں میں دوسروں کے اعتقادات  اور نظریات کو بھی جاننا شروع کر دیا  تو فیصلے جادو کی حد تک صحیح ہونگے۔ آجکل کی نوجوان نسل کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے  تو اور بھی ضروری ہے کہ اُن کے افکار کو جانا جائے جو اُن کے ناپختہ ذہنوں پر  کسی منفی اثر کے باعث ہو سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا قصہ میں اُستانی بچے کے اپنے جواب پر اصرار کا سبب اُسی وقت ہی جان پائی  جب اُس نے بچے سے یہ پوچھا کہ کس طرح یہ سیب تین نہیں چار ہو رہے ہیں۔ اگر آپ بھی کسی کو ایک مخصوص نقطہ  نظر پر مُصر دیکھیں تو کوئی حرج نہیں کہ اُس سے پوچھ ہی لیں کہ وہ کیوں ایسی رائے یا اعتقاد پر یقین کیئے بیٹھا ہے۔ جان لینے کے بعد آپ کو معاملہ آگے بڑھانے میں آسانی رہے گی۔ بلکہ ہو سکے تو ایک بار خود اپنے آپ سے بھی  یہ پوچھ لیا کریں کہ آپ کیوں کسی کے بارے میں یہ رائے قائم کر رہے ہیں کہ وہ غلطی پر ہے؟ کہیں غلطی پر آپ ہی ناں  ہوں۔


خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مسائل کا شکوہ کرنا آسان یا انکا حل
 کہتے ہیں کہ ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ  بند ہو کر رہ گئی۔ اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ  آتے جاتے لوگوں کے ردِ عمل سُنے اور اُسے آگاہ کرے۔ 
اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا،  یہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے  ہر اُس شخص  کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار  ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔
اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ  اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی،  قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے  کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ  وہاں  سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح  یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو  دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔ 
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا  تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔ 
کیا خیال ہے آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
تو پھر کیا خیال ہے شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا؟


خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اگر آپ گننا شروع کردیں
ہو سکتا ہے مندرجہ ذیل قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق نا ہو، مگر اس سے حاصل ہونے والے فائدے کیلئے آخر تک پڑھ لیجیئے۔
٭٭٭٭٭
ایک شخص نے بہتر گھر خریدنے کیلئے اپنا  پہلے والا  گھر بیچنا چاہا۔
اس مقصد کیلئے وہ اپنے ایک ایسے دوست کے پاس گیا جو جائیداد کی خرید و فروخت میں اچھی شہرت رکھتا  تھا۔
اس شخص نے اپنے دوست کو مُدعا سنانے کے بعد کہا کہ وہ اس کے لئے  گھر برائے فروخت کا ایک اشتہار لکھ  دے۔
اس کا دوست اِس گھر کو بہت ہی اچھی طرح  سے جانتا تھا۔ اشتہار کی تحریر  میں اُس نے گھر کے محل وقوع، رقبے، ڈیزائن، تعمیراتی مواد، باغیچے، سوئمنگ پول سمیت ہر خوبی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔
اعلان مکمل ہونے پر اُس نے اپنے دوست کو  یہ اشتہار  پڑھ کر سُنایا تاکہ تحریر پر اُسکی رائے لے سکے۔
اشتہار  کی تحریر سُن کر اُس شخص نے کہا، برائے مہربانی اس اشتہار کو ذرا   دوبارہ پڑھنا۔ اور اُس کے دوست نے  اشتہار دوبارہ پڑھ کر سُنا دیا۔
اشتہار کی تحریر کو دوبارہ سُن کو یہ شخص تقریباً چیخ ہی پڑا کہ کیا میں ایسے شاندار گھر میں رہتا ہوں؟
اور میں ساری زندگی ایک ایسے گھر کے خواب دیکھتا رہا جس میں کچھ ایسی ہی خوبیاں ہوں۔ مگر یہ کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ میں تو رہ ہی ایسے گھر میں رہا ہوں جس  کی ایسی خوبیاں تم بیان کر رہے ہو۔  مہربانی کر کے اس اشتہار کو ضائع کر دو، میرا گھر بکاؤ ہی نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭
ایک منٹ ٹھہریئے، میرا مضمون ابھی پورا نہیں ہوا۔
ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نعمتیں تمہیں دی ہیں ان کو ایک کاغذ پر لکھنا شروع کر دو،  یقیناً اس لکھائی کے بعد تمہاری زندگی اور زیادہ خوش و خرم ہو جائے گی۔
اصل میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا ہی بھلائے بیٹھے ہیں کیوں کہ جو کچھ برکتیں اور نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں ہم اُن کو گننا ہی نہیں چاہتے۔
ہم تو صرف اپنی گنی چنی چند پریشانیاں یا کمی اور کوتاہیاں دیکھتے ہیں اور برکتوں اور نعمتوں کو بھول جاتے ہیں۔
کسی نے کہا:  ہم شکوہ کرتے ہیں کہ اللہ نے  پھولوں کے نیچے کانٹے لگا دیئے ہیں۔ ہونا یوں چاہیئے تھا کہ  ہم اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اُس نے کانٹوں کے اوپر بھی پھول اُگا دیئے ہیں۔
ایک اور نے کہا: میں اپنے ننگے پیروں کو دیکھ کر کُڑھتا  رہا، پھر ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے پاؤں ہی نہیں تھے تو  شکر کے ساتھ اللہ کے سامنے سجدے میں گر گیا۔
اب آپ سے سوال
کتنے ایسے لوگ ہیں جو آپ جیسا گھر، گاڑی، ٹیلیفون، تعلیمی سند،  نوکری  وغیرہ،  وغیرہ،  وغیرہ کی خواہش کرتے ہیں؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جب  آپ  اپنی گاڑی پر سوار جا رہے ہوتے ہو تو وہ سڑک پر ننگے پاؤں یا پیدل جا رہے ہوتے ہیں؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے سر پر چھت نہیں ہوتی جب آپ اپنے گھر میں محفوظ آرام سے سو رہے ہوتے ہیں؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جو علم حاصل کرنا چاہتے تھے اور نا کر سکے اور تمہارے پاس تعلیم کی سند موجود ہے؟
کتنے  بے روزگار شخص ہیں جو فاقہ کشی کرتے ہیں اور آپ کے پاس ملازمت اور   منصب موجود ہے؟
اور وغیرہ وغیرہ وغیرہ ہزاروں باتیں لکھی اور کہی جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔
کیا خیال ہے ابھی بھی اللہ کی نعمتوں کے  اعتراف  اور اُنکا شکر ادا کرنے کا وقت نہیں آیا کہ ہم کہہ دیں
يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجہك وعظيم سلطانك
اللہم لك الحمد حتی ترضی و لك الحمد إذا رضيت ولك الحمد بعد الرضا
خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

زندگی اتنی مشکل تو نہ تھی ، منفی اعتقاد کیا ہیں
کولمبیا کی ایک یونیورسٹی میں ریاضیات کے لیکچر کے دوران کلاس میں حاضر ایک لڑکا بوریت کی وجہ سے سارا وقت پچھلے بنچوں پر مزے  سے  سویا رہا، لیکچر کے اختتام پر طلباء کے باہر جاتے ہوئے شور مچنے پر اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ پروفیسر نے تختہ سیاہ پر دو سوال لکھے ہوئے ہیں۔ لڑکے نے انہی دو سوالوں کو ذمیہ کام سمجھ کر جلدی جلدی اپنی نوٹ بک میں لکھا اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ ہی کلاس سے نکل گیا۔ گھرجا کرلڑکا ان دو سوالوں کےحل سوچنے بیٹھا۔ سوال ضرورت سے کچھ زیادہ ہی مشکل ثابت ہوئے۔ ریاضیات کا اگلا سیشن چار دنوں کے بعد تھا اس لئے لڑکے نے سوالوں کو حل کرنے کیلئے اپنی کوشش جاری رکھی۔ اور یہ لڑکا چار دنوں کے بعد ایک سوال کو حل کر چکا تھا۔
اگلی کلاس میں لڑکے کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پروفیسر نے آتے ہی بجائے دیئے ہوئے سوالوں کے حل پوچھنے کے، نئے موضوع پر پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ لڑکا اُٹھ کر پروفیسر کے پاس گیا اور اُس سے کہا کہ  اُستاد صاحب، میں نے چار دن لگا کر ان چار صفحات پر آپکے دیئے ہوئے دو سوالوں میں سے ایک کا جواب حل کیا ہے اور آپ ہیں کہ کسی سے اس کے بارے میں پوچھ ہی نہیں رہے؟
اُستاد نے حیرت  سے  لڑکے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ میں نے تو کوئی ذمیہ کام نہیں دیا تھا۔ ہاں مگر میں نے تختہ سیاہ پر دو ایسے سوال ضرور لکھے تھے جن کو حل کرنے میں اس دُنیا کے سارے  لوگ ناکام ہو چکے ہیں۔
جی ہاں۔ یہی منفی اعتقادات ہیں جنہوں نے اس دُنیا کے اکثر علماء کو ان مسائل کے حل سے ہی باز رکھا ہوا تھا کہ انکا کوئی جواب دے ہی نہیں سکتا تو کوئی اور کیوں کر انکو حل کرنے کیلئے محنت کرے۔ اور  اگر یہی طالبعلم عین اُس وقت جبکہ پروفیسر تختہ سیاہ پر یہ دونوں سوال لکھ رہا تھا، جاگ رہا ہوتا  اور  پروفیسر کی یہ بات بھی سن رہا ہوتا کہ کہ ان دو مسائل کو حل کرنے میں دنیا ناکام ہو چکی ہے تو وہ بھی یقیناً  اس بات کو تسلیم کرتا اور ان مسائل کو حل کرنے  کی قطعی کوشش ہی نا کرتا۔ مگر  قدرتی طور ہر اُسکا سو جانا اُن دو مسائل میں سے ایک کے حل کا سبب بن گیا۔ اس مسئلے کا چار صفحات پر لکھا  ہوا حل آج بھی کولمبیا کی اُس یونیورسٹی میں موجود ہے۔
تیز دوڑنےسے متعلق  غلط ا عتقادات
آج سے پچاس سال پہلے تک دوڑنے کی مشق کے بارے میں ایک غلط عقیدہ پایا جاتا تھا کہ: کوئی بھی انسان چار منٹوں سے کم وقت میں دوڑ کر ایک میل کی مسافت طے نہیں سکتا۔ اگر کسی شخص نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو اُسکا دل پھٹ جائے گا۔
ایک کھلاڑی نے اس بارے میں پوچھ گچھ شروع کی کہ کیا اب تک  کسی نے چار منٹ سے کم میں یہ مسافت طے کرنے کی کوشش بھی کی ہے یا نہیں؟ یا کتنے ایسے لوگ ہیں جنکا دل ایسا کرنے سے پھٹ گیا ہو؟ مگر اس بات کا کوئی بھی ثبوت نہیں تھا اور ناہی کوئی اس بات کی حقیقت کو جانتا تھا کہ کسی  فرد واحد کا آج تک دل پھٹا بھی تھا یا نہیں!
اس کھلاڑی نے چار منٹ سے کم مدت میں ایک میل کا سفر کرنے کیلئے کوشش شروع کی اور ایک دن اس میں کامیاب بھی ہو گیا۔ جب لوگوں نے اُس کے منہ سے ایسا سنا کہ وہ ایک میل کا سفر چار منٹ سے بھی کم وقت میں دوڑ کر طے کر سکتا ہے تو شروع شروع میں لوگوں نے اُسے پاگل اور جھوٹا سمجھا اور بعد میں یہ شک کیا کہ اُسکی گھڑی غلط ہوگی۔ لیکن بعد اُس شخص کے مسلسل اسرار پر لوگوں نے خود جا کر اُسے دیکھا کہ وہ واقعی ایک میل کی مسافت چار منٹ سے کم وقت میں دوڑ کر طے کر سکتا ہے، اس کے بعد صرف وہی ہی نہیں دنیا بھر سے 100 سے زیادہ لوگوں نے یہی کارنامہ سر انجام دیکر ایک ایسے عقیدے کو جھوٹا ثابت کیا جس کے ساتھ لوگ ازل سے جی رہے تھے۔ ان 100 سے زیادہ لوگوں نے یہ ثابت کیا کہ کوشش کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا۔
ایک اور واقعہ سنیئے:
کہتے ہیں کہ کسی  غذائی مواد  کو سٹور اور فروخت کرنے والی  کمپنی  کے ایک کولڈ سٹور میں،  وہاں کام کرنے والا ایک شخص سٹور میں  موجود سٹاک کے  معائنے  اورسامان کی  گنتی کیلئے گیا۔وہ جیسے ہی کولڈ سٹور میں  داخل ہوا تو پیچھے سے دروازہ بند ہوگیا۔ اس شخص نے شروع میں خود دروازہ کھولنے اور پھر بعد میں دروازہ پیٹ کر باہر سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر دونوں صورتوں میں ناکام رہا۔ بد قسمتی سے اس وقت ہفتے کے اختتامی لمحات  چل رہے تھے۔ اور اگلے دو دن ہفتہ وار چٹھیاں تھیں۔ اس شخص نے جان لیا کہ باہر کی دنیا سے رابطہ کا کوئی ذریعہ نہیں رہا اور نا ہی  وہ کسی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے تو یقینی بات ہے کہ  اُس کی ہلاکت کا وقت آ چکا ہے۔  تھک ہار کر یہ شخص بیٹھ کر اپنے انجام کا انتظار کرنے لگ گیا۔ اور دو دن کے بعد جب یہ کولڈ سٹور دوبارہ کھولا گیا تو واقعی یہ شخص مرا ہوا پایا گیا تھا۔
لوگوں نے اُس کے قریب ہی پڑے ہوئے کاغذات اٹھا کر دیکھے جن پر وہ شخص اپنے مرنے سے پہلے اپنے محسوسات لکھتا رہا تھا۔ کاغذوں پر لکھا ہوا تھا کہ۔۔۔۔(میں اس کولڈ سٹور میں مکمل طور پر قید ہو چکا ہوں۔ ۔۔۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میرے آس پاس برف جمنا شروع ہو گئی ہے۔۔۔۔  میں سردی سے ٹھٹھر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ اب تو مجھے ایسا لگ  رہا ہے کہ میں حرکت بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں سردی سے مر ہی جاؤں گا۔۔۔۔) لکھائی ہر جملے کے ساتھ ضعیف سے ضعیف تر ہوتی گئی تھی یہاں تک کہ لکھنے کا سلسلہ ہی منقطع ہو گیا تھا۔
ان سب باتوں میں جو سب سے عجیب بات دیکھنے میں آئی تھی وہ یہ تھی کہ کولڈ سٹور  میں کولنگ سسٹم کی تو بجلی ہی بند تھی اور وہ تو چل ہی نہیں رہا تھا۔
کیا خیال ہے آپکا؟ کس نے قتل کیا تھا  اس شخص کو؟ جی ہاں، اس شخص کو اُس کے وہم نے مار ڈالا تھا۔  اُسے یقین تھا کہ کولڈ سٹور چل رہا ہے اور یہاں کا درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے ہے جس سے ہر چیز جم جائے گی اور وہ مر جائے گا۔
اسی وجہ سے تو کہا جاتا ہے کہ منفی افکار اور عقائد سے بندھ کر اپنی زندگی کو کنٹرول کرنا ہی نا بند کر دیا جائے۔  ہزاروں لوگ ایسے  گزرے ہیں جنہیں اپنی ذات پر بھروسہ ہی نہیں تھا اور انہوں نے اپنے ہاتھوں میں آئے ہوئے کاموں اور موقعوں کو یہ سوچ کر چھوڑ دیا تھا کہ یہ کام اُن کے بس کا نہیں تھا ۔ جبکہ حقیقت میں معاملہ اسکے بالکل ہی بر عکس تھا۔
ہاتھی اور اُسکی رسی کا واقعہ:
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب  میں نے ایک چڑیا گھر میں ایک عظیم الجثہ ہاتھی کو ایک چھوٹی  سی رسی سے  اسکے اگلے پاؤں کو بندھا ہوا دیکھا تو مجھے بہت حیرت  ہوئی تھی۔ ہاتھی رسی کے ساتھ بندھے ہوئے کھڑا  تھا ایک محدود دائرے میں گھوم رہا تھا۔ ہاتھی کی ضخامت کے اعتبار سے تو اُسے کسی مضبوط زنجیر اور فولادی کڑے سے باندھا جانا چاہیئے تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ ہاتھی کسی بھی لمحے اپنے پاؤں کی معمولی جنبش سے اس رسی کو تڑا کر آزادی حاصل کر سکتا تھا مگر وہ ایسا نہیں کر رہا تھا۔
مجھے جیسے ہی ہاتھی کا رکھوالا نظر آیا تو میں نے اُسے اپنے پاس بلا کر پوچھا: یہ اتنا بڑا ہاتھی کس طرح ایک چھوٹی سی رسی سے بندھا ہوا کھڑا ہے اور یہ کیوں نہیں اپنے آپ کو چھڑوا کر بھاگ جاتا؟
یاتھی کے رکھوالے نے مجھے بتایا کہ: اس طرح کے بڑے جانور جب پیدا ہوتے ہیں تو یقینی بات ہے کہ اس سے کہیں چھوٹے ہوتے ہیں۔ ہم ان کو باندھنے کیلئے اس قسم کی چھوٹی سی رسی ہی استعمال کرتے ہیں۔اس قسم کی چھوٹی سی رسی اس وقت اُن کی عمر اور جسم کے لحاظ سے باندھنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جانور تو بڑے ہوتے رہتے ہیں مگر ان کی سوچ وہی رہتی ہے کہ کہ ابھی بھی وہ اس رسی کو نہیں توڑ سکتے۔
 یہ جان کر مجھے بہت حیرت ہو رہی تھی کہ اتنے بڑے جانور جو اپنی طاقت سے بڑی بڑی وزنی چیزوں کو اٹھا کر ادھر ادھر کر سکتے ہیں۔ مگر  انکا  دماغ  اسی پرانی سوچ سے بندھا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس رسی کی قید سے کبھی بھی نجات نہیں پا سکتے۔
بعض اوقات ہماری مثال بھی تو بالکل ایسی ہی ہوتی ہے ۔ یہی سوچ کر کہ ہم کچھ نہیں کر پائیں گے یا کچھ کیا تو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا یا یہ کام ہمارے بس اور ہمارے روگ کا ہی نہیں جیسی سوچ کی وجہ سے ہم قناعت کے ساتھ ایک  لگے بندھے مفاد کے ساتھ چپکے رہتے ہیں ۔ اسی سوچ کی وجہ سے ہم اپنی ذات، مفاد اور رہن سہن میں بھی کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔
کوشش کرکے نئے وسائل اور نئے راستوں کو اپنائیےاور اپنی زندگی میں  مثبت  طریقے سے اور مثبت تبدیلیاں لا کر  بہتری کی طرف قدم بڑھائیے۔ ہمارے ماحول اور معاشرے میں تو کئی ایسے جھوٹے اعتقادات اور وہمی افکار موجود ہیں جو ہمیں کامیابی کی طرف قدم ہی نہیں اُٹھانے دیتے، کامیابی تو اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ ہمارا واسطہ اکثر -یہ تو ناممکن ہے-،  -یہ تو بہت مشکل کام ہے-،  -یہ تو مجھ سے نہیں ہو پائے گا- وغیرہ جیسے کلمات سے سے پڑتا ہے۔ یقین جانیئے یہ سب کچھ جھوٹ اور بنی ہوئی باتیں ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ پر عزم ، بلند حوصلے اور اللہ پر توکل رکھنے والا انسان ان سب کہاوتوں  کا  انکار کرتے ہوئے ان  رکاوٹوں کو عبور کر لیا کرتا ہے۔
تو پھر آپ ان جھوٹے افکار و عقائد کے خلاف ایک آہنی ارادے کے ساتھ کیوں نہیں اُٹھ کھڑے ہوتے؟ ایک پختہ عزم اور پکے ارادے کے ساتھ اور  کامیابی کے راستے پر گامزن ہونے کیلئے؟
خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

آخر يہودى كيوں دنيا پر چهائے ہوئے ہيں؟
ایک سوال جس کا جواب سب چاہتے ہیں۔
آخر يہودى كيوں دنيا پر چهائے ہوئے ہيں؟
اگرچہ أعداد و شمار تو مدتوں سےہى چيخ چيخ كر حقائق بتلاتے رہے ہيں مگر بہت سے لوگ اس معاملہ كو اپنے ہى انداز اور پسند كے مطابق ديكهتے ہيں۔
اچها آپكو وه زمانہ تو ياد ہى ہوگا ناں جب اس دنيا كے اكثر و بيشتر ملكوں پر مسلمانوں كى حكومت ہوا كرتى تهى۔
تو پهر ايسا كيوں ہوا كہ مسلمان اپنى یہ قدرو منزلت كهو بيٹهے؟ اور كيوں آج دنيا كے بيشتر نظام اور وسائل پر يہودى قابض ہيں؟
آئيے اور ميرے اس آرٹيكل ميں ديئے گئے حقائق اور تجزيات پر غور كيجيئے، حقيقت كا پتہ آپكو خودبخود لگ جائے گا۔ اس صفحہ پر دی ہوئی اکثر معلومات کا تعلق مستند مصادر ہے، عمومی طور پر مذکورہ اشخاص اور اداروں کے بارے میں ويكيپيڈيا پر صفحات موجود ہیں۔
حقيقتيں أعداد و شمار كے آئينے ميں
دنيا بهر ميں يہوديوں كى كل تعداد 1 كروڑ 40 لاكھ، اور اس تعداد كى تقسيم مختلف ملكوں ميں آباد كے لحاظ سے
امريكا ميں 70 لاکھ۔
ايشيائى ملكوں ميں 50 لاکھ ۔
يورپ ميں 20 لاکھ۔
افريقى ملكوں ميں 1 لاکھ۔
دنيا بهر ميں مسلمانوں كى كل تعداد ، 1 ارب 50 كروڑ ، اس تعداد كى تقسيم مختلف ملكوں ميں آباد كے لحاظ سے
أمريكا ميں 60 لاکھ۔
ايشيا اور مشرق وسطى كے ملكوں اور رياستوں ميں كل تعداد 1 ارب
يورپ ميں 4 كروڑ 40 لاکھ۔
افريقى ملكوں ميں 40 كروڑ
اس دنيا كى 20 فيصد آبادى مسلمانوں كى ہے
اس دنيا ميں ہر ايک ہندو كے مقابلے ميں دو مسلمان ہيں۔
اس دنيا ميں ہر ايک بدھ مت شخص كے مقابلے ميں دو مسلمان ہيں۔
اس دنيا ميں ہر ايک يہودى شخص كے مقابلے ميں ايک سو سات مسلمان ہيں۔
اس كے باوجود بهى صرف 1 كروڑ 40 لاکھ یہودى ڈيڑھ ارب مسلمانوں سے زياده طاقتور ہيں۔ ايسا كيوں ہے؟
آئيے حقائق اور اعداد و شمار كو مزيد پلٹتے ہيں۔
جديد تاريخ كے كچھ روشن نام:
البرٹ آئنسٹائن: يہودي۔
سيگمنڈ فرائڈ: يہودي۔
كارل ماركس: يہودي۔
پال سموئيلسن: يہودي۔
ملٹن فريڈمين: يہودي۔
طب و جراحت كى اہم ايجادات
ٹيكہ لگانے والى سرنج اور سوئى كا مؤجد بنجمن روبن: يہودي۔
پوليو كے علاج كا مؤجد جوناس سالک: يہودي۔
خون كے كينسر (لوكيميا) كے علاج كا مؤجد جيرٹرود ايليون: يہودي۔
يرقان كا پتہ لگانے اور اسكے علاج كا مؤجد باروخ سموئيل بلومبرگ: يہودي۔
بيكٹيريائى اور جنسى امراض(Syphilis) كے علاج كا مؤجد پال اہرليخ: يہودي۔
متعدى امراض كے علاج كا مؤجد ايلي ميچينكوف: يہودي۔
غدود كے امراض اور ريسرچ كا اہم ترين نام اينڈريو شالي: يہودي۔
نفسياتى امراض ميں ريسرچ كا اہم ترين نام ايرون بک: يہودي۔
مانع حمل دواؤں كا مؤجد گريگوري بيكس: يہودي۔
انسانى آنكھ اور اسكے نيٹ ورک ميں ريسرچ كا اہم ترين نام جورج والڈ: يہودي۔
كينسر كے علاج ميں ريسرچ كا اہم ترين نام سٹينلى كوہين : يہودي۔
گردوں كى دهلائى كا مؤجد وليم كلوف: يہودي۔
ايجادات جنہوں دنيا كو بدل كر رکھ ديا:
كمپيوٹر كے سى پى يو كا مؤجد سٹينلى ميزر : يہودي۔
ايٹمى رى ايكٹر كا مؤجد ليو زيلنڈ: يہودي۔
فائبر آپٹيكل شعاؤں كا مؤجد پيٹر شلز: يہودي۔
ٹريفک سگنل لائٹس كا مؤجد چارلس ايڈلر: يہودي۔
سٹينليس سٹيل كا مؤجد (سٹينليس سٹيل) بينو سٹراس: يہودي۔
فلموں ميں آواز كا مؤجد آيسادور كيسى: يہودي۔
مائكروفون اور گراموفون كا مؤجد ايمائيل برلائينر: يہودي۔
ويڈيو ريكارڈر(وى سى آر) كا مؤجد چارلس جينسبرگ: يہودي۔
مشہور مصنوعات اور برانڈ:
پولو- رالف لورين: يہودي۔
ليوائس جينز- ليوائى ستراوس: يہودي۔
سٹاربكس- ہوارڈ شولتز: يہودي۔
گوگل- سرجي برين: يہودي۔
ڈيل- مايكل ڈيل: يہودی۔
اوريكل- لاري اليسون: يہودي۔
• DKNY- ڈونا كاران: يہوديہ ۔
باسكن اينڈ روبنز- إيرف روبنز: يہودي۔
ڈانكن دونٹس- ويليام روزينبرگ: يہودي۔
ملكى و عالمى سياست كے اہم نام:
ہنرى كسنجر امريكى وزير خارجه : يہودي۔
رچارڈ ليوين ييل يونيورسٹى كا سربراه : يہودي۔
ايلان جرينزپان امريكى ريزرو فيڈرل كا چيئرمين : يہودي۔
ميڈلين البرايٹ أمريكا كى وزيرِ خارجہ : يہوديہ۔
جوزف ليبرمين امريكا كا مشہور سياستدان : يہودي۔
كاسپر وينبرگر امريكا كا وزيرِ خارجہ : يہودي۔
ميكسم ليٹوينوف سوويت يونين كا وزير برائے امورِ خارجہ : يہودي۔
ديويڈ مارشل سنگاپور كا وزيرِ اعظم: يہودي۔
آيزک آيزک آسٹريليا كا صدر: يہودي۔
بنجامن ڈزرائيلى يونائيٹڈ كنگڈم كا وزيرِ اعظم : يہودي۔
ييفيگني بريماكوف روس كا وزيرِ اعظم: يہودي۔
بيري گولڈ واٹر امريكا كا مشہور سياستدان: يہودي۔
جورج سمبايو پرتگال كا صدر : يہودي۔
ہرب گرے كينيڈا كا نائب صدر : يہودي۔
پيير مينڈس فرانس كا وزيرِ اعظم : يہودي۔
مائيكل ہوارد برطانيه كا وزير مملكت : يہودي۔
برونو كريسكى آسٹريا كا چانسلر : يہودي۔
روبرٹ روبين امريكا كا وزير خزانه : يہودي۔
جورج سوروس هنگرى اور امريكا معزز سرمايه كار: يہودي۔
وولٹر أنينبرگ امريكا ميں سوشل ويلفيئر اور چيريٹى ميں مشہور شخصيت: يہودي۔
ميڈيا كے نماياں نام:
سى اين اين- وولف بليٹزر: يہودي۔
اے بى سى نيوز- بربارا والٹرز: يہوديہ۔
واشنگٹن پوسٹ – يوجين ميئر: يہودي۔
ٹائم ميگيزين – ہنري گرونوالڈ: يہودي۔
واشنگٹن پوسٹ – كيتهرين گراہم: يہوديہ۔
نيو يارک ٹائمز- جوزف ليليفيڈ : يہودي۔
نيو يارک ٹائمز – ميكس فرينكل: يہودي۔
واضح رہے كہ اوپر ديئے گئے نام محض چند مثاليں ہيں ناكہ مجموعى طور پر ان سارے يہوديوں كا ذكر جن كى ايجادات يا مصنوعات سے بنى نوع آدم كا اپنى روزمره كى زندگى ميں كسى نہ كسى طور پالا پڑتا ہے۔
كچھ اور حقائق:
# آخرى 105 سالوں ميں، 1 كروڑ اور 40 لاكھ يہوديوں نے 180 نوبل پرائز حاصل كيئے جبكہ اسى عرصہ ميں ڈيڑھ ارب مسلمانوں نے صرف اور صرف 3 نوبل پرائز حاصل كيئے۔
# اسى بات كو دوسرى طرح ليتے ہيں: اوسطاً ہر 77778 يہودى (80 ہزار سے كم) كے حصہ ميں ايک نوبل پرائز آيا جبكہ مسلمانوں ميں ايک نوبل پرائز ہر 50 كروڑ مسلمانوں كے پاس صرف ايک آيا۔
# اب اسى بات كو ايک اور طريقے سے ديكهتے ہيں: يہودى اگر نوبل پرائز مسلمانوں جيسے تناسب سے حاصل كرتے تو ان كے پاس صرف 0.028 نوبل پرائز ہوتے (يعنى كہ ايک نوبل پرائز كا محض ايک تہائى حصہ)۔
# آيئے اسى بات كو ايک اور طرح سے ديكهتے ہيں: اگر مسلمانوں نے اس تناسب سے يہ انعام حاصل كيئے ہوتے كہ جس تناسب سے يہوديوں نے حاصل كيئے ہيں تو اس وقت مسلمانوں كے پاس 19286 نوبل پرائز ہوتے۔
ليكن كيا يہودى اس طرح اپنى كوئى شناخت بنا پاتے؟
اور كيا يہ شناخت محض اتفاقيہ ہے؟ فراڈ ہے؟ سازش سے ہے؟ يا سفارش سے ہے؟
اور پهر مسلمان اپنى عظمتوں سے گر كر س قدر تنزلى كا شكار كيوں ہوئے جبكہ تعداد ميں واضح فرق موجود ہے؟
آيئے چند اور حقائق ديكهتے ہيں شايد بات سمجھ ميں آ جائے:
# تمام اسلامى ملكوں ميں 500 يونيورسٹى ہيں۔
# جبكہ صرف امريكا ميں 5758 يونيورسٹى ہيں۔
# اور انڈيا ميں 8407 يونيورسٹى ہيں۔
# كسى بهى اسلامى ملک كى يونيورسٹى كا نام دنيا كى پانچ سو (500) بہترين يونيورسٹيوں كى لسٹ ميں شامل ہى نہيں ہے۔
# جبكه صرف اسرائيل كى 6 يونيورسٹى دنيا كى پانچ سو (500) بہترين يونيورسٹيوں كى لسٹ ميں شامل ہيں۔
# مسيحى ملكوں ميں پڑهے لكهے لوگوں كى شرح تناسب 90%
# مسلمان ملكوں ميں پڑهے لكهے لوگوں كى شرح تناسب 40%
# مسيحى ملكوں ميں 15 ملک ايسے ہيں جہاں پڑهے لكهے لوگوں كى شرح تناسب 100% ہے ۔
# مسلمان ملكوں ميں ايسا كوئى ايک ملک بهى نہيں ہے جہاں پڑهے لكهے لوگوں كى شرح تناسب 100% ہو۔
# مسيحى ملكوں پرائمرى تک تعليم حاصل كرنے والوں كا تناسب 98% ہے ۔
# مسلمان ملكوں پرائمرى تک تعليم حاصل كرنے والوں كا تناسب 50% ہے۔
# مسيحى ملكوں يونيورسٹى ميں داخلے كا شرح تناسب 40% ہے ۔
# مسلمان ملكوں يونيورسٹى ميں داخلے كا شرح تناسب 2% ہے۔
نتيجہ خود اخذ كر ليجيئے

خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

جن باٹوں سے تم تول کر دو گے۔
كسان كى بيوى نے جو مكهن كسان كو تيار كر كے ديا تها وه اسے ليكر فروخت كرنے كيلئے اپنے گاؤں سے شہر كى طرف روانہ ہو گيا،
یہ مكهن گول پيڑوں كى شكل ميں بنا ہوا تها اور ہر پيڑے كا وزن ايک كلو تها۔
شہر ميں كسان نے اس مكهن كو حسب معمول ايک دوكاندار كے ہاتھوں فروخت كيا
اور دوكاندار سے چائے كى پتى، چينى، تيل اور صابن وغيره خريد كر واپس اپنے گاؤں كى طرف روانہ ہو گيا.
كسان كے جانے بعد…… دوكاندار نے مكهن كو فريزر ميں ركهنا شروع كيا….
اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے.
وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے
مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 – 900 گرام ہى تها۔
اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكهن ليكر جيسے ہى دوكان كے تهڑے پر چڑها،
دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وه دفع ہو جائے، كسى بے ايمان اور دهوكے باز شخص سے كاروبار كرنا اسكا دستور نہيں ہے. 900
گرام مكهن كو پورا ایک كلو گرام كہہ كر بيچنے والے شخص كى وه شكل ديكهنا بهى گوارا نہيں كرتا.
كسان نے ياسيت اور افسردگى سے دوكاندار سے كہا:
ميرے بهائى مجھ سے بد ظن نہ ہو ہم تو غريب اور بے چارے لوگ ہيں،
ہمارے پاس تولنے كيلئے باٹ خريدنے كى استطاعت كہاں.
آپ سے جو ايک كيلو چينى ليكر جاتا ہوں اسے ترازو كے ايک پلڑے ميں رکھ كر دوسرے پلڑے ميں اتنے وزن كا مكهن تول كر لے آتا ہوں”۔
خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مسجدوں کا عاشق، والدین کا دلارا
ایک شخص نے یوں قصہ سنایا کہ
میں اور میرے ماموں نے حسب معمول مکہ حرم شریف میں نماز جمعہ ادا کی اورگھر کو واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے کچھ فاصلے پر ایک بے آباد سنسان مسجد آتی ہے، مکہ شریف کو آتے جاتے، سپر ہائی وے سے بارہا گزرتے ہوئے اس جگہ اور اس مسجد پر ہماری نظر پڑتی رہتی ہے اور ہم ہمیشہ ادھر سے ہی گزر کر جاتے ہیں۔ مگر آج جس چیز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی وہ تھی ایک نیلے رنگ کی فورڈ کار جو مسجد کی خستہ حال دیوار کے ساتھ کھڑی تھی۔ چند لمحے تو میں سوچتا رہا کہ اس کار کا اس سنسان مسجد کے پاس کیا کام! مگر اگلے لمحے میں نے کچھ جاننے کا فیصلہ کرتے ہوئے، اپنی کار کی رفتار کم کرتے ہوئے مسجد کی طرف جاتی کچی سائڈ روڈ پر ڈال دیا، میرا ماموں جو عام طور پر واپسی کا سفر غنودگی میں گزارتا ہے اس نے اپنی آنکھوں کو وا کرتے ہوئے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھتا، کیا بات ہے، ادھر کیوں جا رہے ہو؟
ہم نے اپنی کار کو مسجد سے دور کچھ فاصلے پر روکا اور پیدل مسجد کی طرف چلے، مسجد کے نزدیک جانے پر اندر سے کسی کی پرسوز آواز میں سورۃ الرحمٰن تلاوت کرنے کی آواز آ رہی تھی، پہلے تو یہی اردہ کیا کہ باہر رہ کر ہی اس خوبصورت تلاوت کو سنیں ، مگر پھر یہ سوچ کر کہ اس بوسیدہ مسجد میں جہاں اب پرندے بھی شاید نہ آتے ہوں، اند جا کر دیکھنا تو چاہیئے کہ کیا ہو رہا ہے؟
ہم نے اند جا کر دیکھا ایک نوجوان مسجد میں جاء نماز بچھائے ہاتھ میں چھوٹا سا قرآن شریف لئے بیٹھا تلاوت میں مصروف ہے اور مسجد میں اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے تو احتیاطا ادھر ادھر دیکھ کر اچھی طرح تسلی کر لی کہ واقعی کوئی اور موجود تو نہیں ہے۔
میں نے اُسے السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا، اس نے نطر اُٹھا کر ہمیں دیکھا، صاف لگ رہا تھا کہ کسی کی غیر متوقع آمد اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، حیرت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
اُس نے ہمیں جوابا وعلیکم السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا۔
میں نے اس سے پوچھا، عصر کی نماز پڑھ لی ہے کیا تم نے، نماز کا وقت ہو گیا ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔
اُس کے جواب کا انتظار کئے بغیر میں نے اذان دینا شروع کی تو وہ نوجوان قبلہ کی طرف رخ کئے مسکرا رہا تھا، کس بات پر یا کس لئے یہ مسکراہٹ، مجھے پتہ نہیں تھا۔ عجیب معمہ سا تھا۔
پھر اچانک ہی اس نوجوان نے ایک ایسا جملہ بولا کہ مجھے اپنے اعصاب جواب دیتے نظر آئے،
نوجوان کسی کو کہہ رہا تھا؛ مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
میرے ماموں نے بھی مجھے تعجب بھری نظروں سے دیکھا جسے میں نظر انداز کر تے ہوئے اقامت کہنا شروع کردی۔
جبکہ میرا دماغ اس نوجوان کے اس فقرے پر اٹکا ہوا تھا کہ مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
دماغ میں بار بار یہی سوال آ رہا تھا کہ یہ نوجوان آخر کس سے باتیں کرتا ہے، مسجد میں ہمارے سوا کوئی بندہ و بشر نہیں ہے، مسجد فارغ اور ویران پڑی ہے۔ کیا یہ پاگل تو نہیں ہے؟
میں نے نماز پڑھا کر نوجوان کو دیکھا جو ابھی تک تسبیح میں مشغول تھا۔
میں نے اس سے پوچھا، بھائی کیا حال ہے تمہارا؟ جسکا جواب اس نے
ــ’بخیر و للہ الحمد‘ کہہ کر دیا۔
میں نے اس سے پھر کہا، اللہ تیری مغفرت کرے، تو نے میری نماز سے توجہ کھینچ لی ہے۔ ’وہ کیسے‘ نوجوان نے حیرت سے پوچھا۔
میں نے جواب دیا کہ جب میں اقامت کہہ رہا تھا تو تم نے ایک بات کہی مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
نوجوان نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ اس میں ایسی حیرت والی کونسی بات ہے؟
میں نے کہا، ٹھیک ہے کہ اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں ہے مگر تم بات کس سے کر رہے تھے آخر؟
نوجوان میری بات سن کر مسکرا تو ضرور دیا مگر جواب دینے کی بجائے اس نے اپنی نظریں جھکا کر زمین میں گاڑ لیں، گویا سوچ رہا ہو کہ میری بات کا جواب دے یا نہ دے۔
میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ تم پاگل ہو، تمہاری شکل بہت مطمئن اور پر سکون ہے، اور ماشاءاللہ تم نے ہمارے ساتھ نماز بھی ادا کی ہے۔
اس بار اُس نے نظریں اُٹھا کر مجھے دیکھا اور کہا؛ میں مسجد سے بات کر رہا تھا۔
اس کی بات میرے ذہن پر بم کی کی طرح لگی، اب تو میں سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ یہ شخص ضرور پاگل ہے۔
میں نے ایک بار پھر اس سے پوچھا، کیا کہا ہے تم نے؟ تم اس مسجد سے گفتگو کر رہے تھے؟ تو پھر کیا اس مسجد نے تمہیں کوئی جواب دیا ہے؟
اُس نے پھر مسکراتے ہوئے ہی جواب دیا کہ مجھے ڈر ہے تم کہیں مجھے پاگل نہ سمجھنا شروع کر دو۔
میں نے کہا، مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے، یہ فقط پتھر ہیں، اور پتھر نہیں بولا کرتے۔
اُس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپکی بات ٹھیک ہے یہ صرف پتھر ہیں۔
اگر تم یہ جانتے ہو کہ یہ صرف پتھر ہیں جو نہ سنتے ہیں اور نہ بولتے ہیں تو باتیں کس سے کیں؟
نوجوان نے نظریں پھر زمیں کی طرف کر لیں، جیسے ابھی بھی سوچ رہا ہو کہ جواب دے یا نہ دے۔
اور اب کی بار اُس نے نظریں اُٹھائے بغیر ہی کہا کہ ؛
میں مسجدوں سے عشق کرنے والا انسان ہوں، جب بھی کوئی پرانی، ٹوٹی پھوٹی یا ویران مسجد دیکھتا ہوں تو اس کے بارے میں سوچتا ہوں
مجھے اُن دنوں کا خیال آجاتا ہے جب لوگ اس مسجد میں نمازیں پڑھا کرتے ہونگے۔
پھر میں اپنے آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ یہ مسجد اب کتنا شوق رکھتی ہوگی کہ کوئی تو ہو جو اس میں آکر نماز پڑھے، کوئی تو ہو جو اس میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے۔ میں مسجد کی اس تنہائی کے درد کو محسوس کرتا ہوں کہ کوئی تو ہو جو ادھر آ کر تسبیح و تحلیل کرے، کوئی تو ہو جو آ کر چند آیات پڑھ کر ہی اس کی دیواروں کو ہلا دے۔
میں تصور کر سکتا ہوں کہ یہ مسجد کس قدر اپنے آپ کو باقی مساجد میں تنہا پاتی ہوگی۔ کس قدر تمنا رکھتی ہوگی کہ کوئی آکر چند رکعتیں اور چند سجدے ہی اداکر جائے اس میں۔ کوئی بھولا بھٹکا مسافر، یا راہ چلتا انسان آ کر ایک اذان ہی بلند کرد ے۔
پھر میں خود ہی ایسی مسجد کو جواب دیا کرتا ہوں کہ اللہ کی قسم، میں ہوں جو تیرا شوق پورا کرونگا۔ اللہ کی قسم میں ہوں جو تیرے آباد دنوں جیسے ماحول کو زندہ کرونگا۔ پھر میں ایسی مسجدمیں داخل ہو کر دو رکعت پڑھتا ہوں اور قرآن شریف کے ایک سیپارہ کی تلاوت کرتا ہوں۔
میرے بھائی، تجھے میری باتیں عجیب لگیں گی، مگر اللہ کی قسم میں مسجدوں سے پیار کرتا ہوں، میں مسجدوں کا عاشق ہوں۔
میری آنکھوں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس بار میں نے اپنی نظریں زمیں میں ٹکا دیں کہ کہیں نوجوان مجھے روتا ہوا نہ دیکھ لے،
اُس کی باتیں۔۔۔۔۔ اُس کا احساس۔۔۔۔۔اُسکا عجیب کام۔۔۔۔۔اور اسکا عجیب اسلوب۔۔۔۔۔کیا عجیب شخص ہے جسکا دل مسجدوں میں اٹکا رہتا ہے۔۔۔۔۔
میرے پاس کہنے کیلئے اب کچھ بھی تو نہیں تھا۔
صرف اتنا کہتے ہوئے کہ، اللہ تجھے جزائے خیر دے، میں نے اسے سلام کیا، مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔
مگر ایک حیرت ابھی بھی باقی تھی۔
نوجوان نے پیچھے سے مجھے آواز دیتے ہوئے کہا تو میں دروازے سے باہر جاتے جاتے رُک گیا،
نوجوان کی نگاہیں ابھی بھی جُھکی تھیں اور وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ جانتے ہو جب میں ایسی ویران مساجد میں نماز پڑھ لیتا ہوں تو کیا دعا مانگا کرتا ہوں؟
میں نے صرف اسے دیکھا تاکہ بات مکمل کرے۔
اس نے اپنی بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا میں دعا مانگا کرتا ہوں کہ
اے میرے پروردگار، اے میرے رب! اگر تو سمجھتا ہے کہ میں نے تیرے ذکر ، تیرے قرآن کی تلاوت اور تیری بندگی سے اس مسجد کی وحشت و ویرانگی کو دور کیا ہے تو اس کے بدلے میں تو میرے باپ کی قبر کی وحشت و ویرانگی کو دور فرما دے، کیونکہ تو ہی رحم و کرم کرنے والا ہے
مجھے اپنے جسم میں ایک سنسناہٹ سی محسوس ہوئی، اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
پیارے دوست، پیاری بہن: کیا عجیب تھا یہ نوجوان، اور کیسی عجیب محبت تھی اسے والدین سے!
کسطرح کی تربیت پائی تھی اس نے؟
اور ہم کس طرح کی تربیت دے رہے ہیں اپنی اولاد کو؟
ہم کتنے نا فرض شناس ہیں اپنے والدین کے چاہے وہ زندہ ہوں یا فوت شدہ؟
بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے اور ہمارا نیکی پر خاتمہ کرے، اللھم آمین
ازراہ کرم! اگر آپ کو  موضوع اچھا لگا ہے تو اپنے ان احباب کو ضرو ر پڑھوائے جن کا آپ چاہتے ہیں کہ بھلا اور فائدہ ہو جائے۔
مت بھولئے کہ نیکی کی ترغیب دلانے والے کو نیکی کرنے والے جتنا ہی ثواب ملتا ہے۔
کیا کبھی آپ میں سے کسی نے یہ سوچا ہے کہ موت کے بعد کیا ہوگا؟ جی ہاں موت کے بعد کیا ہوگا؟
تنگ و تاریک گڑھا، گھٹا ٹوپ اندھیرا، وحشت و ویرانگی، سوال و جواب، سزا و جزا، اور پھر جنت یا دوزخ۔
یا اللہ، اس مضمون پڑھنے والے کے دکھ درد اور پریشانیاں دور فرما دے، آمین یا رب العالمین۔

خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

دوسروں کی قدر
خاوند سارے دن کے کام سے تھکا ہارا گھر واپس لوٹا ۔ ۔ ۔
تو کیا دیکھتا ہے کہ اُس کے تینوں بچے گھر کے سامنے ۔ ۔ ۔
کل رات کے پہنے ہوئے کپڑوں میں ہی مٹی میں لت پت کھیل رہے ہیں۔
گھر کے پچھواڑے میں رکھا کوڑا دان بھرا ہوا اور مکھیوں کی آماجگاہ ہوا ہے۔
گھر کے صدر دروازے کے دونوں پٹ تو کھلے ہوئے تھے ہی،
مگر گھر کے اندر مچا ہوا اودھم اور بے ترتیبی کسی میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی۔
کمرے کی کُچھ لائٹیں ٹوٹ کر فرش پر بکھری پڑی تھیں تو قالین دیوار کے ساتھ گیا پڑا تھا۔
ٹیلیویژن اپنی پوری آواز کے ساتھ چل رہا تھا تو بچوں کے کھلونے فرش پر بکھرے ہوئے تھے اور کپڑوں کی مچی ہڑبونگ ایک علیحدہ کہانی سنا رہی تھی۔
کچن کا سنک بغیر دُھلی پلیٹوں سے اٹا ہوا تھا تو دسترخوان سے ابھی تک صبح کے ناشتے کے برتن اور بچی کُچھی اشیاء کو نہیں اُٹھایا گیا تھا۔
فریج کا دروازہ کھلا ہوا اور اُس میں رکھی اشیاء نیچے بکھری پڑی تھیں۔
ایسا منظر دیکھ کر خاوند کا دل ایک ہول سا کھا گیا۔ دل ہی دل میں دُعا مانگتا ہوا کہ اللہ کرے خیر ہو، سیڑھیوں میں بکھرے کپڑوں اور برتنوں کو پھاندتا اور کھلونوں سے بچتا بچاتا بیوی کو تلاش کرنے کیلئے اوپر کی طرف بھاگا۔ اوپر پہنچ کر کمرے کی طرف جاتے ہوئے راستے میں غسلخانے سے پانی باہر آتا دِکھائی دیا تو فوراً دروازہ کھول کر اندر نظر دوڑائی، باقی گھر کی طرح یہاں کی صورتحال بھی کُچھ مختلف نہیں تھی، تولئیے پانی سے بھیگے فرش پر پڑے تھے۔ باتھ ٹب صابن کے جھاگ اور پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا اور اُسی کا پانی ہی باہر جا رہا تھا۔ ٹشو پیپر مکمل طور پر پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، ٹوتھ پیسٹ کو شیشے پر ملا ہوا تھا۔ خاوند نے یہ سب چھوڑ کر ایک بار پھر اندر کمرے کی طرف دوڑ لگائی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا تو انتہائی حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُسکی بیوی مزے سے بیڈ پر لیٹی ہوئی کسی کہانی کی کتاب کو پڑھ رہی تھی۔ خاوند کو دیکھتے ہی کتاب نیچے رکھ دی اور چہرے پر ایک مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی؛ آپ آ گئے آفس سے، کیسا گُزرا آپکا دِن؟
خاوند نے بیوی کا التفات اور استقبال نظر انداز کرتے پوچھا؛ آج گھر میں کیا اودھم مچا پڑا ہے؟
بیوی نے ایک بار پھر مُسکرا کر خاوند کو دیکھا اور کہا؛ روزانہ کام سے واپس آ کر کیا آپ یہی نہیں کہا کرتے کہ میں گھر میں رہ کر کیا اور کونسا اہم کام کرتی ہوں؟
خاوند نے کہا؛ ہاں ایسا تو ہے، میں اکثر یہ سوال تُم سے کرتا رہتا ہوں۔
بیوی نے کہا؛ تو پھر دیکھ لیجیئے، آج میں نے وہ سب کُچھ ہی تو نہیں کیا جو روزانہ کیا کرتی تھی۔
*****
خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

کیا تم چور ہو؟
ایک سوڈانی ڈاکٹر کہتا ہے کہ وہ میڈیکل کی ایک سپیشلائزیشن کے پہلے پارٹ کے امتحان کے سلسلہ میں ڈبلن گیا۔۔ اس امتحان کیلئے فیس ۳۰۹ پاؤنڈ تھی۔ مناسب کھلے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اُس نے متعلقہ ادارے میں ۳۱۰ پاؤنڈ ادا کیئے، بھاگ دوڑ اور رش کے باعث باقی کے پیسے لینا یاد نہ رہے، امتحان دے کر واپس اپنے ملک چلا گیا۔ واپسی کے کُچھ عرصے بعد اُسے سوڈان میں ایک خط موصول ہوا، خط کے ساتھ ایک پاؤنڈ کا چیک منسلک تھا اور ساتھ ہی وضاحت بھی کی گئی تھی کہ اُسے ایک پاؤنڈ کا یہ چیک کس سلسلے میں بھیجا گیا تھا۔۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اس قصے نے مُجھے اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ یاد دلا دیا ہے۔۔ سن ۱۹۶۸ کا ذکر ہے جب میں نے انگلینڈ بیڈفورڈ کمپنی کے خرطوم میں ایجنٹ سے ایک لاری مبلغ ۲۴۰۰ سوڈانی پاؤنڈ میں خریدی۔ اب میں جو کُچھ آپ کو بتانے جا جا رہا ہوں اُس پر زیادہ حیران نہ ہوں، یہ اُن اچھے دنوں کا واقعہ ہے جب انسانی اقدار مادیت پر حاوی ہوا کرتی تھیں،،، لاری خریدنے کے کوئی چار یا چھ مہینے کے بعد مُجھے اُس ایجنٹ سے ایک لیٹر موصول ہوا جس میں درج تھا کہ انگلینڈ بیڈفورڈ کمپنی نہایت ہی شرمندگی کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ لاری کی پیداواری لاگت اور بیچنے کی قیمت میں حسابی غلطی ہو گئی تھی۔ اصولا ہمیں ۲۳۷۰ پاؤنڈ لینا چاہیئے تھے مگر ہم نے ۲۴۰۰ پاؤنڈ وصول کر لیئے ہیں۔ ساتھ ہی مُجھے کہا گیا تھا کہ میں اُن سے رابطہ کروں تاکہ وہ مُجھے ۳۰ پاؤنڈ لوٹا سکیں۔
ان ۳۰ پاؤنڈ کے ملنے پر مُجھے اس قدر خوشی ہو رہی تھی جو اس بناء پر نہیں تھی کہ مُجھےغیر متوقع طور پر ۳۰ پاؤنڈ کی آمدنی ہونے جا رہی تھی۔ اور نہ ہی ۳۰ پاؤنڈ میرے لئے کوئی ایسی بڑی رقم تھی جس سے میرے دن پھرنے جا رہے تھے۔ مُجھے خوشی اس عالی القدر اخلاق، ا مانت کی اس نادر مثال اور انسانی اقدار کی اس عظیم حفاظت پر ہو رہی تھی جس سے برطانوی قوم بہرہ ور تھی۔
جبکہ میں اپنے ہی آس پاس، اپنے ہم مذہب اور ہم جنس کاروباری لوگوں، تاجروں، دُکانداروں اور حتیٰ کہ جن پیشوں سے مُنسلک لوگوں کو عملی اخلاق و کردار اور اعلیٰ معاملات کے نمونہ ہونا چاہیئں اُنکی خیانت، بد دیانتی، غلط ترین معاملہ، بد اخلاقی اور کم ظرفی کو دیکھتا ہوں تو غم اور غصہ کے مارے رو پڑتا ہوں۔ سخت رو، درشت اور احساس سے عاری لوگ جو اپنے ہی ہموطنوں سے امانت و صداقت سے دور رہ کر برتاؤ کرتے ہیں۔ دوسروں کے حقوق غصب کر لینا یا قومی سرمایہ کو باطل طریقوں سے لوٹنا تو بعد کی بعد ہے، عوام الناس کو کس طرح لوٹا جائے کے طریقوں پر اس طرح سوچا اور غور کیا جاتا ہے جس طرح کہ گویا یہی انکی عاقبت کو سنوارنے والا معاملہ ہو۔ مذہب کی تعلیمات کی تو کُچھ پرواہ ہی نہیں رہی، دونوں ہاتھوں سے پیسہ لوٹنے کو نصب العین بنا لیا گیا ہے۔
معاف کیجیئے میں موضوع سے ہٹ کر غصہ کی رو میں بہہ گیا ہوں کیوں کہ اب جو بات مُجھے غصہ دلا رہی ہے وہ مُجھے
۱۹۷۸ کا وہ یاد آنے والا واقعہ ہے جب میں پہلی بار سیر و تفریح کیلئے لندن گیا۔ اُس وقت لندن جانے کا تصور میرے لئے بہت ہی فرحت بخش اور میرا مقصد وہاں کی ہر تفریح اور سیر و سیاحت والی جگہ سے لطف اندوز ہونا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اس سفر کو اپنے لئے یادگار بنانے کیلئے گیا تھا۔
میں نے لندن میں بادنگٹن کے علاقے میں رہائش رکھی ہوئی تھی۔ آمدورفت کیلئے روزانہ زیر زمین ٹرین استعمال کرتا تھا۔ میں جس اسٹیشن سے سوار ہوتا تھا وہاں پر ایک عمر رسیدہ عورت کے سٹال سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ اُسکے سٹال پر ٹھہر کر اُس سے چند باتیں کرنا میرا معمول تھا اور ساتھ ہی میں روزانہ اُس سے ایک چاکلیٹ بھی خرید کر کھایا کرتا تھا جس کی قیمت
۱۸ پنس ہوا کرتی تھی۔ چاکلیٹ کے یہ بار قیمت کی آویزاں تختی کے ساتھ ایک شیلف پر ترتیب سے رکھے ہوا کرتے تھا۔ گاہک قیمت دیکھ کر اپنی پسند کا خود فیصلہ کر کے خرید لیتے تھے۔
حسب معمول ایک دن وہاں سے گُزرتے ہوئے میں اس عورت کے سٹال پر ٹھہرا اور اپنا پسندیدہ چاکلیٹ بار لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آج وہ چاکلیٹ دو مختلف شیلف میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت حسبِ معمول
۱۸ پنس ہی تھی مگر دوسرے شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت ۲۰ پنس لکھی ہوئی تھی۔
میں نے حیرت کے ساتھ اُس عورت سے پوچھا؛ کیا یہ چاکلیٹ مختلف اقسام کی ہیں؟ تو اُس نے مختصرا کہا نہیں بالکل وہی ہیں۔ اچھا تو دونوں کے وزن میں اختلاف ہو گا؟ نہیں دونوں کے وزن ایک بھی جیسے ہیں۔ تو پھر یقینایہ دونوں مختلف فیکٹریوں کے بنے ہوئے ہونگے؟ نہیں دونوں ایک ہی فیکٹری کے بنے ہوئے ہیں۔
میری حیرت دیدنی تھی اور میں حقیقت جاننا چاہتا تھ، اسلیئے میں نے اس بار تفصیل سے سوال کر ڈالا؛ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک شیلف میں رکھے ہوئے چاکلیٹ کی قیمت
۱۸ پنس ہے جبکہ دوسرے شیلف میں رکھے ہوؤں کی قیمت ۲۰ پنس! ایسا کیوں ہے؟
اس بار اُس عورت نے بھی مُجھے پوری صورتحال بتانے کی غرض سے تفصیلی جواب دیتے ہوئے ہوئے کہا کہ آجکل نائجیریا میں جہاں سے کاکاؤ آتا ہے کُچھ مسائل چل رہے ہیں جس سے وجہ سے چاکلیٹ کی قیمتوں میں ناگہانی طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔
میں نے یہاں عورت کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مادام، آپ سے بیس پنس کی چاکلیٹ کون خریدے گا جبکہ وہی اٹھارہ پنس کی بھی موجود ہے؟ عورت نے کہا؛ میں جانتی ہوں ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا۔ مگر جیسے ہی پُرانی قیمت والے چاکلیٹ ختم ہوں گے لوگ خود بخود نئی قیمتوں والے خریدنے لگیں گے۔
اپنی فطرت اور ماحول پروردہ خوبیوں کے ساتھ، روانی میں کہیئے یا اپنی عادتوں سے مجبور، میں نے کہا؛ مادام، آپ دونوں چاکلیٹ ایک ہی خانے میں رکھ کر بیس پنس والی نئی قیمت پر کیوں نہیں بیچ لیتیں؟
میری بات سُننا تھی کہ عورت کے تیور بدلے، چہرے پر موت جیسی پیلاہٹ مگر آنکھوں میں خوف اور غصے کی ملی جُلی کیفیت کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں مُجھ سے بولی؛ کیا تو چور ہے؟
اب آپ خود ہی سوچ کر بتائیے کیا میں چور ہوں؟ یا وہ عورت جاہل اور پاگل تھی؟ اور شاید عقل و سمجھ سے نا بلد، گھاس چرنے والی حیوان عورت!
اچھا میں مان لیتا ہوں کہ میں چور ہوں تو یہ سب کون ہیں جو غلہ اور اجناس خریدتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ کل مہنگی ہونے پر بیچیں گے۔
کس جہنم میں ڈالنے کیلئے پیاز خرید کر رکھے جاتے ہیں جو مہنگے ہونے پر پھر نکال کر بیچتے ہیں۔
اُن لوگوں کیلئے تو میں کوئی ایک حرف بھی نہیں لکھنا چاہتا جن کی چینی گوداموں میں پڑے پڑے ہی مہنگی ہوجاتی ہے۔ نہ ہی مُجھے اُن لوگوں پر کوئی غصہ ہے جو قیمت بڑھاتے وقت تو نہیں دیکھتے کہ پہلی قیمت والا کتنا سٹاک پڑا ہے مگر قیمتیں کم ہونے پر ضرور سوچتے ہیں کہ پہلے مہنگے والا تو ختم کر لیں پھر سستا کریں گے۔
کیا ہمارے تجار نہیں جانتے کہ مخلوق خدا کو غلہ و اجناس کی ضرورت ہو اور وہ خرید کر اس نیت سے اپنے پاس روک رکھیں کہ جب او ر زیادہ گرانی ہو گی تو اسے بیچیں گے یہ احتکار کہلاتا ہے۔ روزِ محشر شفاعت کے طلبگار شافعیِ محشر صلی اللہ علیہ وسلم کاغلہ کے احتکار اور ذخیرہ اندوزی پر کیا فرمان اور کیا وعید ہے کو تو نہیں سُننا چاہتے کیونکہ وہ فی الحال اپنی توندوں اور تجوریوں کو جہنم کی آگ سے بھرنے میں جو لگے ہوئے ہیں۔
مُجھے کسی پر غصہ اور کسی سے کوئی ناراضگی نہیں، میں تو اُس جاہل عورت پر ناراض ہوں جس نے محض میرے مشورے پر مُجھے چور کا خطاب دیدیا۔ اچھا ہے جو وہ برطانیہ میں رہتی تھی، ادھر آتی تو حیرت سے دیکھتی اور سوچتی کہ وہ کس کس کو  چور کہے! اور اُسے کیا پتہ کہ وہ جسے بھی چور کہنا چاہے گی وہ چور نہیں بلکہ ہمارے سید، پیر، مخدوم، شیخ، حکام اور ہمارے راہنما ہیں۔
جاہل کہیں کی!

خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: 
 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خیر اندیش  کلیم راجہ
22 جولائی 2012 
 اقتباس: 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1923 کا واقعہ ہے کہ دنیا کے 8 دولت مندترین افراد ملے، ان کی دولت کا اندازہ یہاں سے لگایاجاسکتا ہے کہ ان سب کی مشترکہ دولت امریکن گورنمنٹ کی مکمل دولت سے زیادہ تھی۔
ان لوگوں کو علم تھا کہ کہ بہترین زندگی کیسے بنائی جاسکتی ہے اور دولت کس ہنر سے جمع کی جاتی ہے۔
یہ پڑھنا کہ یہ دنیا کے 8 دولت مند ترین افراد 25 سال بعد کہاں پہنچے بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔
25 سال بعد۔۔۔
1۔پریزیڈنٹ آف لارجسٹ سٹیل کمپنی، چارلس شواب، بینک دہندہ کے طور پر مرا۔
2۔پریزیڈینٹ آف لارجسٹ گیس کمپنی، ہوورڈ، پاگل ہوگیا۔
3۔اجناس کا بہت بڑا تاجر، آرتھر کٹن، دیوالیہ ہوکر مرا۔
4۔پریزیڈنٹ آف نیویارک سٹاک ایکسچینج، رچرڈ وٹنے، کو قید ہوگئی۔
5۔صدر کی کابینہ کے ایک رکن، البرٹ فال، کو جیل سے رہائی ملی۔
6۔وال سٹریٹ پر سب سے بڑا ریچھ بنانے والے، جیسی لیومور نے خودکشی کرلی۔
7۔دنیا کی سب سے بڑی مناپلی بنانے والے لوار کروگر نے خودکشی کرلی۔
8۔صدر بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ نے خودکشی کرلی۔
چنانچہ یہ سب کیا تھا؟
ان سب نے غلطی کہاں کی؟
انھوں نے یقیناً بہت سا پیسہ کمایا تھا اور وہ واقعی بہت امیر بھی تھے مگر۔۔۔۔۔ان میں کوئی تو کمی ہوئی ہوگی جس کی بنا پر یہ انتہائی اقدام کی زد میں آئے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جیسے جیسے انھیں یہ پتہ چلتا گیا کہ اپنی زندگی کو کیسے پر آسائیش کرتے جائیں وہاں وہ یہ بھولتے بھی گئے کہ زندگی کیسے بنانی ہے۔ وہ زندگی بنانا بھول گئے۔ اور انھوں نے محض دولت ہی کمائی۔
دولت آسائیشیں بھی دیتی ہے اور حیثییت بھی سچ ہے۔ یہ بھوکے کو کھانا بھی دیتی ہے۔ مریض کو دوا بھی۔ضرورتمند کو کپڑے بھی دیتی ہے۔ بے گھر کو گھر بھی دیتی ہے۔ ابھی تک یہی ثابت ہوتا ہے کہ پیسہ دولت محض ایک ذریعہ ہے ان ضرورتوں تک پہنچنے کا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام دو طرح کی تعلیم رائج کرے۔
ایک حصہ ہمیں یہ سکھائے کہ زندگی کی ضرورتوں کو کیسے حاصل کیا جائے اور
دوسرا حصہ یہ بتائے کہ زندگی کی اقدار کیا ہیں اور اپنی زندگی کو پروقار اور قیمتی کیسے بنائیں۔ (محض دولت کما لینے سے زندگی قیمتی نہیں ہوجاتی، زندگی قیمتی بنتی ہے سیکھنے اور سکھانے کے عمل اور مدد سے)۔جو ہمیں خوشی کا دھوکہ دینے والے سراب اور پھندے سے آزاد کرے۔ بہت سے لوگ عمریں گزار دیتے ہیں اور صحت، خاندان، معاشرتی ضماداریوں اور بہت سی جھوٹی اناوں کے خول اور شکنجے میں دم گھٹا کر جینے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اور کبھی بھی آزادی کی سانس نہیں لے پاتے۔
جب ہم گھر سے نکلتے ہیں تو بچے سو رہے ہوتے ہیں اور جب ہم گھر لوٹتے ہیں تب بھی بچوں کو سوتا ہی پاتے ہیں۔ بیس سال گزر جاتے ہیں، ہم اپنے پیچھے دیکھتے ہیں۔ اور ہم بہت سے خواب، اپنی صحت اور اپنے مقاصد دولت کی خاطر کھو چکے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب خواب محض ایک خیال کی حد سے بھی نیچے آ چکے ہوتے ہیں۔ اور ہم بہت کچھ بھول بھی چکے ہوتے ہیں۔
بنا پانی کے، ایک بحری جہاز حرکت نہیں کرسکتا، جہاز کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر پانی جہاز میں داخل ہوجائے تو؟؟؟
جہاز کی بقا کو خطرہ لاحق ہوجائے گا اور بلاخر جہاز ڈوب جائے گا۔ اسی طرح، دیکھا جائے تو ہم جس دور کے باسی ہیں وہاں دولت کی اہمیت اپنی جگہ مگر کوشش کریں کہ یہ دولت آپکے دل میں نہ داخل ہوجائے، کیونکہ اس طرح وہ جو کسی وقت میں آپ جینا چاہ رہے تھے اور پیسہ جینے کا تقاضہ اور وسیلہ تھا ایک بھاری زنجیر کی صورت آپ کے گرد لپٹ جائے گی ، سب ختم ہوجائے گا، مقصدِ حیات بدل جائے گا۔ اور وجود ایک بڑی تباہی میں آجائے گا، جو آپ کو کبھی نظر نہیں آئے گی۔
تو کچھ دیر بیٹھیں اور سوچیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی کہیں میرے جہاز میں بھی  تو  داخل نہیں ہوگیا؟
 (جناب زاہد کلیم کی فاروڈننگ ای میل کا ترجمہ) 12 مئی 2012



ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


کل بن دیکھے سودا تھا اس لیئے سستا تھا۔ قصہ غور سے پڑھئے
ہارون الرشید کے زمانے میں بہلول نامی ایک بزرگ گزرے ہیں۔ وہ مجذوب اور صاحب ِ حال تھے ۔ ہارون الرشید ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ ہارون الرشیدکی بیوی زبیدہ خاتون بھی ایک نیک اور پارسا عورت تھیں۔ انھوں نے اپنے محل میں ایک ہزار ایسی خادمائیں رکھی ہوئی تھیں جو قرآن کی حافظہ اور قاریہ تھیں۔ ان سب ڈیوٹیاں مختلف شفٹوں میں لگی ہوئی تھیں۔ چنانچہ ان کے محل سے چوبیس گھنٹے ان بچیوں کے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی ہوتی تھی۔ ان کا محل قرآن کا گلشن محسوس ہوتا تھا۔
ایک دن ہارون الرشیداپنی بیوی کے ساتھ دریا کے کنارے ٹہل رہے تھے کہ ایک جگہ بہلول دانا کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے کہا، اسلام وعلیکم، بہلول دانا نے جواب میں کہا، وعلیکم سلام۔ ہارون الرشید نے کہا ، بہلول آپ کیا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریب کے گھر بنا رہا ہوں۔ پوچھا، کس کے لیئے بنارہے ہیں؟ جواب دیا کہ جو آدمی اس کو خریدے گا میں اس کے لیئے دعا کروں گا کہ اللہ رب العزت اس کے بدلے اس کو جنت میں گھر عطا فرمادے۔ بادشاہ نے کہا، بہلول اس گھر کی قیمت کیا ہے؟ انہوں نے کہاکہ ایک دینار۔ ہارون الرشید نے سمجھا کہ یہ دیوانے کی بڑ ہے لہذا وہ آگے چلے گئے۔
ان کے پیچھے زبیدہ خاتون آئیں۔ انہوں نے بہلول کو سلام کیا اور پھر پوچھا بہلول کیا کررہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں ریت کے گھر بنا رہاہوں۔ پوچھا کس کے لیئے گھر بنا رہے ہیں؟
بہلول نے کہا کہ جو آدمی اس گھر کو خریدے گا میں اس کے لیئے دعا کروں گا کہ یا اللہ اس کے بدلے اس کو جنت میں گھر عطا فرمادے۔ انہوں نے پوچھا، بہلول اس گھر کی کیا قیمت ہے؟ بہلول نے کہا ایک دینار۔ زبیدہ خاتون نے ایک دینار نکال کر ان کو دے دیا اور کہا کہ میرے لیئے دعا کرنا، وہ دعا لے کر چلی گئیں۔
رات کو جب ہارون الرشیدسوئے تو انہوں نے خواب میں جنت کے مناظر دیکھے ، آبشاریں، مرغزاریں اور پھل پھول وغیرہ دیکھنے کے علاوہ بڑے اونچے اونچے خوبصورت محلات بھی دیکھے، ایک سرخ یاقوت کے بنے ہوئے محل پر انہوں نے زبیدہ کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ ہارون الرشیدنے سوچا کہ میں دیکھوں تو سہی کیوں کہ یہ میری بیوی کا گھر ہے۔ وہ محل میں داخل ہونے کے لیئے جیسے ہی دروازے پر پہنچے تو ایک دربان نے انہیں روک لیا۔ ہارون الرشیدکہنے لگے ، اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہوا ہے، اس لیئے مجھے اندرجانا ہے، دربان نے کہا نہیں، یہاں کا دستور الگ ہے، جس کا نام ہوتا ہے اسی کو اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے، کسی اور کو اجازت نہیں ہوتی، لہذا آپ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب دربان نے ہارون الرشید کو پیچھے ہٹایا تو ان کی آنکھ کھل گئی۔
بیدار ہونے پر فوراً خیال آیا کہ مجھے تو لگتا ہےکہ بہلول کی دعا زبیدہ کے حق میں اللہ رب العزت کے ہاں قبول ہوگئی۔ پھر انہیں خود پر افسوس ہوا کہ میں بھی اپنے لیئے ایک گھر خرید لیتا تو کتنا اچھا ہوتا، وہ ساری رات اسی افسوس میں کروٹیں بدلتے رہے، صبح ہوئی تو ان کے دل میں خیال آیا کہ آج پھر میں ضرور دیا کے کنارے جاوں گا۔ اگر آج مجھے بہلول مل گئے تو میں بھی ایک مکان ضرور خریدوں گا۔
چنانچہ وہ شام کو پھر اپنی بیوی کو لے کر چل پڑے، وہ بہلول کو تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا کہ بہلول ایک جگہ بیٹھے اسی طرح مکان بنا رہے ہیں، ہارون الرشید نے اسلام وعلیکم کہا، بہلول نے جواب دیا وعلیکم سلام، ہارون الرشیدنے پوچھا، کیا کررہے ہیں؟ بہلول نے کہا، میں گھر بنا رہا ہوں۔ ہارون الرشیدنے پوچھا کس لیئے، بہلول نے کہا ، جو آدمی یہ گھر خریدے گا، میں اس کے حق میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اسے اس گھر بدلے جنت میں گھر عطاکرے۔
ہارون الرشیدنے پوچھا ، بہلول اس گھر کی قیمت بتائیں کیا ہے؟ بہلول نے کہا، اس کی قیمت پوری دنیا کی بادشاہی ہے۔ ہارون الرشیدنے کہا ، اتنی قیمت تو میں نہیں دے سکتا، کل تو آپ ایک دینار کے بدلے دے رہے تھے، اور آج پوری دنیا کی بادشاہت مانگ رہے ہیں؟ بہلول دانا نے کہا، بادشاہ سلامت! کل بن دیکھےمعاملہ تھا اور آج دیکھا ہوا معاملہ ہے، کل بن دیکھے کا سودا تھا اس لیئے سستا مل رہا تھا، اور آج چونکہ دیکھ کے آئے ہیں اس لیئے اب اس کی قیمت بھی زیادہ دینی پڑے گی۔
15اپریل 2012، تحقیق کلیم راجہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کنکریاں
ایک قافلہ ایک اندھیری گلی سے گزرا، ان کے پاؤں میں کنکریاں چُبھیں، کچھ لوگوں نے اس خیال سے کہ یہ کنکریاں کسی اور مسافر کو بھی گزرتے ہوئے چبھ سکتی ہیں نیکی کی خاطر اٹھا کر جیب میں ڈال لیں، کچھ نے زیادہ کچھ نے کم، 
جب اندھیرے سے باہر آکر دیکھا تو وہ ہیرے تھے، جنہوں نے کم اُٹھائے تھے وہ بھی پچھتائے اور جنھوں نے زیادہ اُٹھائے تھے وہ بھی پچھتائے۔
دُنیا کی زندگی کی مثال اسی اندھیرے کی سی ہے۔
نیکیاں کنکریوں کی طرح بکھری پڑی ہیں، جو اس زندگی میں اٹھا لیں وہ آخرت میں ہیرے جیسی قیمتی ہونگیں اور انسان ترسے گا کے زیادہ کیوں نہ اٹھائیں۔
    حمیرہ فرید لاہور ۔ 30دسمبر 2011
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آگے نکل جانے کا ہنر
کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبا کی نظریں کبھی استاد کی طرف اٹھتیں اور کبھی تختہ سیاہ کی طرف، استاد کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔
استاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رُخ طلباء کی طرف کرتے ہوئے پوچھا،
 "تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کردے"
یہ ناممکن ہے۔، کلاس کے سب سے ذہین طالبعلم نے آخرکار اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔
"لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑے گا اور آپ اسے چھونے سے بھی منع کررہے ہیں"،
 باقی طلباء نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کردی۔
استاد نے گہری نظروں سے طلباء کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی۔
جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ استاد نے پچھلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کردیا تھا۔ طلباء نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھا تھا۔
دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کئے بغیر، ان سے حسد کئے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے نکل جانے کا ہنر چند منٹوں میں انہوں نے سیکھ لیا تھا۔
شاہد نواز فیس بک پوسٹ 25مئی  2012
 ____________________________________________________
 
مال تمہارا مگر وسائل معاشرے کی ملکیت ہوا کرتے ہیں
(انتخابی تحریر)
جرمنی ایک صنعتی ملک ہے جہاں دُنیا کی بہترین مصنوعات اور بڑے بڑے برانڈز  مثلاً مرسیڈیز بینز، بی ایم ڈبلیو اور سیمنز پروڈکٹس بنتے ہیں۔ ایٹمی ری ایکٹر میں استعمال ہونے والے پمپ تو  محض اس ملک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنتے ہیں۔ اس طرح کے ترقی یافتہ ملک کے بارے  میں کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ وہاں  لوگ  کس طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہونگے، کم از کم میرا خیال تو  اُس وقت یہی تھا جب میں پہلی بار اپنی تعلیم کے سلسلے میں سعودیہ سے جرمنی  جا رہا تھا۔
میں جس وقت ہمبرگ پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود  میرے دوست میرے استقبال کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت کا پروگرام بنا چکے تھے۔ جس وقت ہم ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے  اس وقت وہاں گاہک نا ہونے کے برابر اور اکثر میزیں خالی نظر آ رہی تھیں۔  ہمیں جو میز دی گئی اس کے اطراف میں ایک میز پر  نوجوان میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ،  اُن کے سامنے صرف ایک ڈش میں کھانا رکھا  ہوا تھا جس کو وہ اپنی اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھا رہے اور شاید دونوں کے سامنے ایک ایک گلاس جوس بھی رکھا ہوا نظر آ رہا تھا جس سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ بیچاروں کا رومانوی ماحول میں بیٹھ کر کھانا کھانے کوتو  دل چاہ رہا  ہوگا مگر جیب زیادہ اجازت نا دیتی ہو گی۔ ریسٹورنٹ میں ان کے علاوہ کچھ عمر رسیدہ خواتین نظر آ رہی تھیں۔
ہم سب کی بھوک اپنے عروج پر تھی  اور اسی بھوک کا حساب لگاتے ہوئے میرے دوستوں نے کھانے کا فراخدلی سے آرڈر لکھوایا۔ ریسٹورنٹ میں گاہکوں کے نا ہونے کی وجہ سے ہمارا کھانے لگنے میں زیادہ وقت  نا  لگا اور ہم نے بھی کھانے میں خیر سے کوئی خاص دیر نا لگائی۔
پیسے ادا کر کے جب ہم جانے کیلئے اُٹھے تو ہماری پلیٹوں میں کم از کم ایک تہائی کھانا ابھی بھی بچا ہوا تھا۔ باہر جانے کیلئے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے  ریسٹورنٹ میں موجود اُن بڑھیاؤں نے ہمیں آوازیں دینا شروع کر دیں۔ ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ ساری اپنی جگہ کھڑی ہو کر زور زور سے باتیں کر رہی تھیں اور ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ اُنکا موضوع ہمارا ضرورت سے زیادہ کھانا طلب کرنا اور اس طرح  بچا کر ضائع کرتے ہوئے جانا تھا۔ میرے دوست نے جواباً اُنہیں کہا کہ ہم نے جو کچھ آرڈر کیا تھا اُس کے پیسے ادا کر دیئے ہیں اور تمہاری اس پریشانی اور ایسے معاملے میں جس کا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا میں دخل اندازی کرنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔  ایک عورت  یہ بات سُنتے ہی  ٹیلیفون کی طرف لپکی اور کسی کو فوراً وہاں آنے کو کہا۔ ایسی صورتحال میں ہمارا وہاں سے جانا یا کھسک جانا ہمارے لیئے مزید مسائل کھڑے کر سکتا تھا اس لئے ہم وہیں ٹھہرے رہے۔
کچھ ہی دیر میں وہاں ایک باوردی شخص آیا جس نے اپنا تعارف ہمیں  سوشل سیکیوریٹی  محکمہ کے ایک افسر کی حیثیت سے کرایا۔ صورتحال کو دیکھ اور سن کر اُس نے ہم پر پچاس مارک کا جرما نہ عائد کر۔ اس دوران  ہم چپ چاپ کھڑے رہے۔  میرے دوست نے آفیسر سے معذرت کرتے ہوئے پچاس مارک جرمانہ ادا کیا اور اس نے ایک رسید بنا کر میرے دوست کو تھما دی۔
آفیسر نے جرمانہ وصول کرنے کے بعد شدید لہجے میں ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ : آئندہ جب بھی کھانا طلب کرو تو اُتنا ہی منگواؤ جتنا  تم کھا سکتے ہو۔ تمہارے پیسے تمہاری ملکیت  ضرور ہیں مگر وسائل معاشرے کی امانت ہیں۔ اس دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں جو غذائی کمی کا شکار ہیں۔ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم کھانے پینے کی اشیاء کو اس طرح  ضائع کرتے پھرو۔
بے عزتی کے احساس اور شرمساری سے ہمارے چہرے سرخ ہورہے تھے۔  ہمارے پاس اُس آفیسر کی بات کو سننے اور اس سے اتفاق کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ذہنی طور پر ہر اُس بات کے قائل ہو چکے تھے جو اُس نے  ہمیں کہی تھیں۔  مگر کیا کریں ہم لوگ ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو وسائل کے معاملے میں  تو خود کفیل نہیں ہے مگر ہماری عادتیں کچھ اس طرح کی بن گئی ہیں کہ ہمارے پاس کوئی مہمان آ جائے تو  اپنا منہ رکھنے کیلئے یا اپنی جھوٹی  عزت یا خود ساختہ اور فرسودہ روایات   کی پاسداری خاطر دستر خوان پر کھانے کا ڈھیر لگا دیں گے۔ نتیجتاً بہت سا  ایسا کھانا کوڑے کے ڈھیر کی نظر ہوجاتا ہے جس کے حصول کیلیئے کئی  دوسرے ترس رہے ہوتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم  اپنی  ان بری عادتوں کو تبدیل کریں اور نعمتوں کا اس طرح  ضیاع اور انکا اس طرح سے  کفران  نا کریں۔
ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر  میرے دوست نے سامنے کی ایک دکان سے  جرمانے کی رسید کی فوٹو کاپیاں بنوا کر ہم سب کو اس واقعہ کی یادگار کے طور پر دیں تاکہ ہم گھر جا کر اسے نمایاں طور پر کہیں آویزاں کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ آئندہ کبھی بھی اس طرح کا اسراف نہیں کریں گے۔
جی ہاں! آپکا  مال یقیناً آپکی مِلکیت ہے مگر وسائل سارے معاشرے کیلئے ہیں۔
(اقتباس حاجی سلیم صاحب) 26 مئی 2012
____________________________________________________ 
 قبر سے ایک ای میل
میرے ایک واقف کار نے یہ واقعہ سنایا۔ کہتا ہے اُس کا ایک بہت اچھا دوست تھا جو پچھلے دنوں روڈ ایکسیڈنٹ میں مارا گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اُس پر اپنا رحم فرمائے اور اُس کی خطاوں کو معاف فرمائے۔ مرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ وہ مر گیا، سب نے مرنا ہے۔ لیکن اس کی موت سے کچھ قباحتیں اور مشکلات کھڑی ہوئی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ مرنے والا انٹرنیٹ سے متعلقہ امور میں مہارت رکھنے والا  شخص تھا۔ فحش مواد والی ویب سائٹس اُسکی کمزوریاں تھیں اور ننگی تصاویر جمع کرنا اُس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
حتیٰ کہ اُس نے اپنی ایک ویب سائٹ بھی بنا رکھی تھی جس پر ہر طرح کی فحش تصاویر کا ایک بہت بڑا مجموعہ لوگوں کی تفریح طبع کیلئے موجود تھا۔ ویب سائٹس کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ رجسٹرڈ ممبران کو نئی تصاویر یا ہر کچھ دنوں کے بعد چند تصاویر کا ایک مجموعہ خود بخود ہی ان کے ایمیل پر پوسٹ ہو جاتا تھا۔
اب میرے اس دوست کی ناگہانی موت نے ہمارے لیئے یہ مصیبت کھڑی کر دی ہے کہ ہمیں اس کی ویب سائٹ کا پاس ورڈ معلوم نہیں ہے تاکہ کم از کم اس ویب سائٹ کو بند کریں یا کوئی دوسرا حل نکالیں۔
کہتا ہے: جب میں مسجد میں بیٹھا اس کی نماز جنازہ کا انتظار رہا تھا تو یہی  سوچ رہا تھا اور جب ہم سب اس کی لاش کو اُٹھا کر قبر کی طرف جا رہے تھے تو بھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہ قبر میں جا کر کس چیز کا سامنا کرے گا؟ ننگی تصاویر کا؟ حسبنا اللہ و نعم الوکیل
قبرستان میں قبروں کی وحشت اور ویرانگی مگر جنازے کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں کے رش کے باوجود میرا دماغ بس یہی بات ہی سوچتا رہا۔ میں نے قبر کے اندر ایک نظر ڈالی اور افسوس کے ساتھ سوچا پتہ نہیں میرے دوست کا یہاں کیا حشر ہوگا؟
میرے دوست کے کچھ قریبی احباب تو رو بھی رہے تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کیا انکا رونا میرے دوست کے کسی کام آ سکے گا؟
ہم نے میت دفنائی اور واپس چل دیئے۔ جی ہاں اپنے دوست کو قبر میں اکیلا چھوڑ کر، اسکا سارا مال اور اس کے سارے اھل خانہ واپس، وہاں رہا تو اس کے اعمال تھے، اور کیا پتہ اس کے کیسے اعمال تھے؟
میرے دوست کی ماں اکثر خواب میں دیکھتی کہ لڑکے اس کے بیٹے کی قبر پر آتے ہیں اور پیشاب کر کے چلے جاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ مجھ سے پوچھتی کہ یہ کیسا خواب ہے اور اسکی کیا تعبیر ہوگی؟ اس بیچاری کو کیا پتہ کہ اس خواب کے پیچھے کیا راز تھے!
میں اپنے آپ کو کہتا کہ خواب کی تعبیر تو واضح ہے لڑکے وہ لوگ تھے جن کو میرا دوست ننگی تصاویر بھیجا کرتا تھا اور وہ لڑکے یہ تصاویر آگے سے آگے پہنچاتے تھے۔ اللہ اکبر، یہ کیسا جال سا پھیلا ہوا تھا اور کس کس کے گناہ میرے دوست کو ڈس رہے ہونگے؟
میں نے اپنے دوست کی ویب سائٹ کی ہوسٹنگ کمپنی سے رابطہ کیا تاکہ وہ اس ویب سائٹ کو بند کردیں۔ مگر انہوں نے معذرت کر لی کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ میرے اصرار پر انہوں نے مجھے یہاں تک بھی کہا کہ وہ مجھ پر یقین نہیں کر سکتے کیونکہ جس نام اور جس پاس ورڈ سے یہ ویب سائٹ خریدی اور بنائی گئی تھی وہ معلومات میرے پاس نہیں تھیں۔ میں نے انہیں غصے میں بھی لکھا کہ لوگو، میرے دوست پر رحم کر دو، وہ بیچارہ مر گیا ہے مگر سب بے سود تھا۔
میں اکثر بیٹھ کر اپنے دوست کی حالت پر سوچتا جو کہ مجھے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشاد مبارک کے مصداق نظر آتا جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں میں سے کچھ شر کے راستے کھولنے والے اور خیر کے بند کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور مین تڑپ کر رہ جاتا میرا دوست کس طرح لوگوں کے گناہ اُٹھائے گا جن کیلئے اس نے شر کے دروازے کھولے تھے۔ اور کس طرح قیامت کے دن ان سب گناہوں کو اپنے کندھے پر لاد کر محشر میں جائے گا؟
میں جانتا ہوں کہ میری ان باتوں کا کسی پر کچھ اثر نہیں ہونے لگا، کیونکہ نوجوان تو اس کو محض وقت گزاری جانتے ہیں، جب کہ اللہ کی پناہ؛ ان تصاویر کے نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لڑکوں نے ایسی تصاویر دیکھیں،  اپنی خواہشات کے سامنے بے بس ہوئے اور گناہوں کے گڑھوں میں کرتے چلے گئے اور کتنی ہی معصوم بچیاں بربادیوں میں پھنستی چلی گئیں۔
میرا دوست تو مر گیا مگر میں جانتا ہوں کہ روز قیامت اس سے ضرور سوال کیا جائے گا کہ تو نے کتنی ایسی تصاویر ہر اپنی نظریں ڈالیں اور تیری دوسروں کو بھجی ہوئی تصویروں پر کس کس کی نظریں گئیں؟ تو نے کدھر کدھر یہ تصاویر پھیلائیں اور اور جن تک تیری بھیجی ہوئی تصاویر گئین انہوں نے کس قدر آگے ان کو آگے پھیلایا؟
مجھے اب بالکل کچھ نہیں سوجھ رہا کہ اس سلسلے کو میں کس طرح روک دوں؟ اللہ میرے دوست پر رحم فرمادے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمار خاتمہ اچھا لکھ دے۔ اور اللہ کرے یہ قصہ عقل والوں کیلئے عبرت کا سامان ہو۔
آمین یارب
 اقتباس حاجی سلیم صاحب- 26 مئی 2012
____________________________________________________ 
کیا وہ پہلے بے خبر سورہا تھا؟
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ایک بہت بڑی کمپنی میں ملازمت کے حصول لے لیئے انٹرویو دینے گیا، اس نے کمپنی کے دیئے گئے تمام امتحانات میں اچھے معیار سے کامیابی حاصل کرلی۔
کمپنی کے ڈائریکٹر نے اس کی کارکردگی دیکھتے ہوئے ابھی آخری انٹرویو لینا تھا۔ کپنی کا ڈائیر کٹر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس نوجوان کی کارکردگی نہ صرف کمپنی کے امتحانات میں ہی اچھی تھی بلکہ تعلیمی میدان میں ہر جماعت میں بھی اس نے امتیازی نمبر لیئے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ اس کی تربیت بہت اچھے انداز میں کی گئی تھی۔
ڈائیرکٹر نے متجسس ہو کر نوجوان سے سوال کیا کہ کیا سکول والوں نے تمہارے لیئے کوئی وظیفہ مقرر کیا تھا؟
نوجوان نے جواب دیا : نہیں جناب
ڈائیرکٹر نے پھر سوال کیا کہ کیا تمہاری اعلیٰ تعلیم کے لیئے تمہارے والد نے تمہارے اخراجات اُٹھائے؟
نوجوان نے کہا :نہیں جناب، میرے والد تو تب ہی فوت ہوگئے تھے جب کہ میں ابھی مشکل ایک سال کا ہی تھا۔
ڈائیر کٹر نے تجسس سے پھر سوال کیا: تو پھر تمہاری تعلیم کے اور دیگر اخراجاب کیسے ادا ہوئے؟
نوجوان نے اب کی بار جواب دیا: جناب یہ میری والدہ تھیں جنہوں نے میری  تعلیم اور دیگر تمام ذمہ داریوں کے اخراجات اٹھائے۔
ڈائیر کٹر نے سوال کیا: تمہاری ماں کوئی کام کرتی تھیں  یا وراثتی طور پر یہ اخراجات ادا ہوئے؟
نوجوان نے جواب دیا: جناب وراثتی طور پر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ میری والدہ لوگوں کے کپڑے دھویا کرتی تھیں۔ اور وہاں سے ہی زندگی کی گزر بسر بھی ہوتی تھی اور میرے تعلیمی اخراجات بھی ادا ہوتے تھے۔
ڈائیرکٹر نے نوجوان سے اپنے ہاتھ دکھانے کو کہا۔ ہاتھ دیکھنے پر پتہ چلا کہ نوجوان کے ہاتھ تو بالکل صاف ستھرے اور نفیس حالت میں تھے۔
ڈائیرکٹر نے نوجوان سے پوچھا: کیا تم نے اپنی والدہ کی ان کے کام میں کبھی مدد بھی کی؟
نوجوان نے کہا: نہیں جناب میری والدہ نے مجھے کبھی اپنے کام میں مدد نہیں کرنے دی، وہ کہتی تھیں کہ تُم بس اپنی تعلیم مکمل کرو اور اس میں حرج نہ ہونے دینا۔اور اس کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ میری والدہ میری نسبت کم وقت میں زیادہ کپڑےدھولیا کرتی تھیں۔
ڈائیرکٹرنے نوجوان سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آج جب تُم گھر جاو تو اپنی والدہ کے ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ دبانا اور انہیں آرام دینے کی کوشش کرنا اور کل صبح واپس مجھ سے ضرور ملنا۔
نوجوان جب گھر کی جانب لوٹ رہا تھا تو بہت خوشی محسوس کررہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کمپنی میں اسے رکھ لیا گیا ہے اور یہاں اسے ترقی کے بہت مواقع ملنے والے ہیں۔ اسی مسرت کو محسوس کرتے ہوئے وہ گھر پہنچا۔ شام کا وقت تھا۔ اس کی والدہ صحن میں چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ وہ اپنی ماں جی کی چارپائی کے پاس نیچے بیٹھ گیا، اور ڈائیرکٹر سے آخری بات کے علاوہ سب احوال سنا ڈالا کہ کیسے وہ ہر امتحان میں کامیاب ہوا۔پھر اس نے اپنی والدہ سے کہا، ماں جی میں آپ کے ہاتھ دبانا چاہتا ہوں۔ اس کی والدہ حیران بھی تھیں اور خوش بھی کہ میرے بیتے نے زندگی میں کبھی بھی ایسا نہیں کیا۔ ملے جلے جذبات کے ساتھ اس کی والدہ نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کردیئے۔ اس نے اپنی والدہ کے ہاتھ آہستگی سے تھا م لیئے  اور آہستہ آہستہ انہیں دبانے لگ گیا کہ اس کی والدہ کو اس سے آرام ملے۔
بیٹے نے آہستہ آہستہ ہاتھ دبانے شروع کیئے ، جیسے ہی اس نے اپنی ماں کے ہاتھ دھونے شروع کیئے تو اس نوجوان کے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔
اُسے پہلی بار محسوس ہوا کہ اُس کی ماں کے ہاتھوں میں بہت سی جُھریاں پڑچُکی تھیں، ہاتھ بہت سوکھ چُکے تھے، اور اس حد تک خستہ حالت میں تھےکہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی، اور تو اور کُچھ جگہوں پر تو ہاتھ دباتے ماں جی کے ہاتھ اس قدر کمزور اور زخمی پڑچکے تھے کہ درد کی وجہ سے کپکپا اُٹھتے تھے۔
تب اُس لمحے پہلی مرتبہ اس نوجوان کو احساس ہوا کہ یہ تو وہی ہاتھ ہیں جن سے اس کی ماں نے لوگوں کے کپڑے دھودھو کر اس کے سکول کے واجبات ادا کیے اور اس کے خرچے اٹھائے ، انہی ہاتھوں کی مرحونِ منت  جو اس وقت زخمی حالت میں ہیں وہ آج اس مقام پر ہے کہ زندگی کا ہر امتحان باالسلوب طے ہوا، اعلیٰ ڈگریاں ملیں، اسے کسی جگہ رکاوٹ کا سامنہ نہ ہوا، اور ان سب کی قیمت چکائی میری ماں جی نے۔
اسی احساس کے ساتھ وہ نوجوان اپنی ماں جی کے ہاتھ احترام سے دابتا گیا، اور اب وہ ہاتھ زیادہ محتاط ہوکر دبا رہاتھا کہ اس کی والدہ کو ہلکا سا بھی درد نہ ہو۔ پھر نوجوان اٹھا، وہ کپڑے جو اس کی والدہ نےا بھی دھونے تھے اس نوجوان نے خود دھوئے۔
اور اس رات ماں بیٹا دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔
اگلی صبح نوجوان ڈائیرکٹر کے دفتر میں تھا۔ ڈائیرکٹرنے محسوس کِیا کی نوجوان کی آنکھیں بھری ہوئی تھیں، اس نے نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا: کیا تُم مجھے بتا سکتے ہو کہ کل تم نے کیا کیا کِیا اور کیا سیکھا؟
نوجوان نے گھمبیر آواز میں جواب دیا:میں نے اپنی ماں جی کے ہاتھ دبائے اور اس کے بعد وہ کپڑے جو ابھی دھونے باقی تھے انہیں دھویا۔
ڈائیرکٹرنے کہا: پھر تُم نے کیا محسوس کیا ، جب تُم یہ سب کررہے تھے؟
نوجوان نے جواب دیا: جناب کل مجھے پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ قربانی دینا کسے کہتے ہیں ، احساسات کیا ہوتے ہیں ، اپنوں کا دُکھ درد کیا ہوتا ہے، کسی پہ مشکل گزرتی ہے تو اسے کیسے محسوس کرتے ہیں۔ اپنی ماں جی کے بغیر میں کبھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اور ماں جی کے کام میں مدد کرتے ہوئے اور اکٹھے کام کرتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ کوئی بھی کام کرتے ہوئے کتنا مشکل ہوسکتا ہے، اور دوسرے شخص کے جذبات کیا ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کسی کی مشکالات کو بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ اور آخری بات یہ کہ مجھے خاندان میں رہتے ہوئے رشتو ں کے فضائیل اور قدر ، حوصلہ افزائی، جذبات اور قربت کا احساس ہوا۔
ڈائیرکٹرکے چہرے  پر ایک کشادہ مسکراہٹ آئی اور اس نے کہا: بیٹا بالکل یہی وہ جذبات اور احساسات ہیں جو میں اپنی کمپنی کے مینیجر میں دیکھنا چاہ رہا تھا۔
میں اپنی کمپنی میں ایک ایسے شخص کو لانا چاہتا تھا جو صرف روپے پیسے کی گنتی پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں کے کام میں ان کی حوصلہ افزائی بھی کرسکے، اور دوسروں کو کام کرتے ان کی مشکلات کو بھی محسوس کرسکے اور ان کا تجربہ بھی۔
"مبارک ہو! بطور مینیجر تمہارا اس کمپنی میں انتخاب ہوچکا ہے نوجوان"
اور بعد میں اس نوجوان نے اس کمپنی میں بہت محنت سے کام کیا، اسے اپنے ماتحتوں سے بہت سی عزت ملی، اور کمپنی کے تمام ملازمین نے بہت محنت اور لگن سے کام کیا ، اور کمپنی کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی ملی!
"کچھ اس واقعہ کے بارے میں"
ایک بچے کے آرام کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے، اسکی تمام عادات اور خواہشات بھی بروقت مکمل کردی جاتی ہیں، اس صورت میں وہ پلے بڑھے گا ضرور، مگر صرف ذہنی طور پر اور اس کے پاس معلومات کا ذخیرہ بھی ہوگا، اعلیٰ ڈگریاں بھی لے لے گا، وہ ہر جگہ اور ہر مقام پر خود کو اعلیٰ سمجھے گا۔مگر ہوگا یہ کہ وہ اپنے والدین کی محنت پر نظر نہیں کرسکے گا کہ وہ خود کتنے کٹھن مراحل طے کرتے کون کون سی پریشانیوں کو سہتے اسے اس مقام تک لے کر آئے ہیں۔
اور جب وہ فرد کام کرنے کے قابل ہوجاتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر شخص اس کی بات سنے، اور جب وہ ایک بڑی سطح کی سیٹ پر آجاتا ہے جیسے مینیجر  تو کبھی بھی اپنے ماتحت افراد پر گزرنے والے حالات سے آگاہ نہیں ہوپاتا اور ہمیشہ خود کو بری الزمہ گردانتے ہوئے دوسروں پر الزامات ڈال دے گا۔ اس طرح کا فرد تعلیمی حوالے سے تو بہتر ہوگا اور وقتی طور پر کامیابی بھی حاصل کرلے گا مگر کبھی بھی کامیابی کے ان اصل جذبات تک رسائی نہ کرپائے گا۔ وہ دوسروں کو تنقید اور نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا، اور زیادہ سے زیادہ پانے کی دوڑ میں مصروف رہے گا۔ اسے کوئی پرواہ نہ ہوگی چاہے اس سے کسی کے جذبات ہی مجروع کیوں نہ ہوں۔
کیا ہم بھی اسی طرح کے والدین ہیں کہ جو اپنے آنے والے مستقبل کو ایسے ہی افراد کے ہاتھوں میں دے دیں گے کہ جنہیں انسان محض ایک مشین لگے، اور جو سوچیں کہ ہم نے تو بس انسان سے کام ہی لینا ہے، کیا ہم اپنے بچوں کی واقعی پرورش کررہے ہیں یا انہیں تباہ کررہے ہیں؟؟؟
آپ اپنے بچوں کو بڑے گھروں میں رکھ سکتے ہیں، انہیں بہترین کھانا دے سکتے ہیں، پیانو سکھا سکتے ہیں، انہیں دیکھنے کے لیئے ٹیلی ویژن دے سکتے ہیں، کھیلنے کے لیئےفٹ بال، ٹیبل ٹینس، کرکٹ اور کمپیوٹر گیمز کی آسائیش دے سکتے ہیں۔
مگر۔۔۔
جب کبھی آپ اپنے دالان سے گھاس کاٹ رہے ہوں تو اپنے بچوں کو بھی اس کا تجربہ ہونے دیں، کھانا کھانے کے بعد انہیں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھانا کھائی ہوئی پلیٹیں اور برتن بھی دھونے کے مرحلے سے گزاریں۔ اپنے روزمرہ کے کام جو آپ کی روٹین کا حصہ ہوں ان کاموں میں انہیں بھی شامل رکھیں۔
یہ سب اس لیئے نہیں ہے کہ آپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ آپ ایک کام کرنے والی کو گھر رکھ سکیں بلکہ یہ اس لیئے ہے کہ آپ اُن کو صحیح طریق کی محبت اور جذبات سے روشناس کرواسکیں، ان کی جذباتی ، محسوساتی اور اخلاقی تربیت کرسکیں۔
ان بچوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی کام کن مراحل سے گزر کر سرانجام ہوتا ہے اور اس دوران کام کرنے والے کے کیا جذبات ہوتے ہیں اور اس پر کیا گزرتی ہے، تبھی یہ زندگی کو بہت جلد اور آسانی سے سمجھ سکیں گے۔ انہیں پتہ چلنا چاہیے کہ محبت کیا ہے اور ان بچوں کے والدین کے بال بھی ایک دن بالکل اس نوجوان لڑکے کی ماں کی طرح سفید ہوجائیں گے۔
یہ بچے کی خالص تربیت ہوگی جہاں اسے پتہ چلے گا کہ دوسروں کے ساتھ کیسے نبھائی جائے اور ان کے درد تک کیسے رسائی ہو کہ اپنوں کا درد جب سمجھا جاتا ہے تو وہاں ترس نہیں ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ مطلب : ایک درد
اقبال فرماتے ہیں:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
   (جناب زاہد کلیم کی فاروڈننگ ای میل کا ترجمہ) 27 جون 2010
____________________________________________________ 
 
یہ کیسی محبت تھی؟
1930کے عشرے میں (یہ کمیونزم کے زمانے کا ذکر ہے) ایک طالبعلم نے جب مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وقت ہونے پر اُس نے نماز پڑھنے کی جگہ تلاش کرنا چاہی تو اُسے بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں نماز پڑھنے کی جگہ تو نہیں ہے۔ ہاں مگر تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک کمرے میں اگر کوئی چاہے تو وہاں جا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔

طالبعلم یہ بات سوچتے ہوئے کہ دوسرے طالبعلم اور اساتذہ نماز پڑھتے بھی ہیں یا نہیں، تہہ خانے کی طرف اُس کمرے کی تلاش میں چل پڑا۔

وہاں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ نماز کیلئے کمرے کے وسط میں ایک پھٹی پرانی چٹائی تو بچھی ہوئی ہے مگر کمرہ صفائی سے محروم اور کاٹھ کباڑ اور گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کا ایک ادنیٰ ملازم وہاں پہلے سے نماز پڑھنے کیلئے موجود ہے۔ طالبعلم نے اُس ملازم سے پوچھا کیا تم یہاں نماز پڑھو گے؟

ملازم نے جواب دیا، ہاں، اوپر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی ادھر نماز پڑھنے کیلئے نہیں آتا اور نماز کیلئے اس کے علاوہ کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔

طالبعلم نے ملازم کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا؛ مگر میں یہاں ہرگز نماز نہیں پڑھوں گا اور اوپر کی طرف سب لوگوں کو واضح دکھائی دینے والی مناسب سی جگہ کی تلاش میں چل پڑا۔ اور پھر اُس نے ایک جگہ کا انتخاب کر کے نہایت ہی عجیب حرکت کر ڈالی۔

اُس نے بلند آواز سے اذان کہی! پہلے تو سب لوگ اس عجیب حرکت پر حیرت زدہ ہوئے پھر انہوں نے ہنسنا اور قہقہے لگانا شروع کر دیئے۔ اُنگلیاں اُٹھا کر اس طالبعلم کو پاگل اور اُجڈ شمار کرنے لگے۔ مگر یہ طالبعلم تھا کہ کسی چیز کی پرواہ کیئے بغیر اذان پوری کہہ کر تھوڑی دیر کیلئے اُدھر ہی بیٹھ گیا۔ اُس کے بعد دوبارہ اُٹھ کر اقامت کہی اور اکیلے ہی نماز پڑھنا شروع کردی۔ اُسکی نماز میں محویت سے تو ایسا دکھائی تھا کہ گویا وہ اس دنیا میں تنہا ہی ہے اور اُسکے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں۔

دوسرے دن پھر اُسی وقت پر آ کر اُس نے وہاں پھر بلند آواز سے اذان دی، خود ہی اقامت کہی اور خود ہی نماز پڑھ کر اپنی راہ لی۔ اور اس کے بعد تو یہ معمول ہی چل نکلا۔ ایک دن، دو دن، تین دن۔۔۔وہی صورتحال۔۔۔ پھر قہقہے لگانے والے لوگوں کیلئے اُس طالبعلم کا یہ دیوانہ پن کوئی نئی چیز نہ رہی اور آہستہ آہستہ قہقہوں کی آواز بھی کم سے کم ہوتی گئی۔ اسکے بعد پہلی تبدیلی کی ابتداء ہوئی۔ نیچے تہہ خانے میں نماز پڑھنے والے ملازم نے ہمت کر کے باہر اس جگہ پر اس طالبعلم کی اقتداء میں نماز پڑھ ڈالی۔ ایک ہفتے کے بعد یہاں نماز پڑھنے والے چار لوگ ہو چکے تھے۔ اگلے ہفتے ایک اُستاذ بھی آ کر اِن لوگوں میں شامل ہوگیا۔

یہ بات پھیلتے پھیلتے یونیورسٹی کے چاروں کونوں میں پہنچ گئی۔ پھر ایک دن چانسلر نے اس طالبعلم کو اپنے دفتر میں بلا لیا اور کہا: تمہاری یہ حرکت یونیورسٹی کے معیار سے میل نہیں کھاتی اور نہ ہی یہ کوئی مہذب منظر دکھائی دیتا ہے کہ تم یونیورسٹی ہال کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر اذانیں دو یا جماعت کراؤ۔ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ یہاں اس یونیورسٹی میں ایک کمرے کی چھوٹی سی صاف سُتھری مسجد بنوا دیتا ہوں، جس کا دل چاہے نماز کے وقت وہاں جا کر نماز پڑھ لیا کرے۔

اور اس طرح مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں پہلی مسجد کی بنیاد پڑی۔ اور یہ سلسلہ یہاں پر رُکا نہیں، باقی کی یونیورسٹیوں کے طلباء کی بھی غیرت ایمانی جاگ اُٹھی اور ایگریکلچر یونیورسٹی کی مسجد کو بُنیاد بنا کر سب نے اپنے اپنے ہاں مسجدوں کی تعمیر کا مطالبہ کر ڈالا اور پھر ہر یونیورسٹی میں ایک مسجد بن گئی۔

اِس طالبعلم نے ایک مثبت مقصد کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور پھر اِس مثبت مقصد کے نتائج بھی بہت عظیم الشان نکلے۔ اور آج دن تک، خواہ یہ طالبعلم زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے، مصر کی یونیورسٹیوں میں بنی ہوئی سب مسجدوں میں اللہ کی بندگی ادا کیئے جانے کے عوض اجر و ثواب پا رہا ہےاور رہتی دُنیا تک اسی طرح اجر پاتا رہے گا۔ اس طالب علم نے اپنی زندگی میں کار خیر کر کے نیک اعمالوں میں اضافہ کیا۔
---
میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ
ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسا کونسا اضافہ کیا ہے؟ تاکہ ہمارا اثر و رسوخ ہمارے گردو نواح کے ماحول پر نظر آئے، ہمیں چاہیئے کہ اپنے اطراف میں نظر آنے والی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہا کریں۔ حق و صدق کہنے اور کرنے میں کیسی مروت اور کیسا شرمانا؟ بس مقاصد میں کامیابی کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد و نصرت کی دعا مانگتے رہیں۔
---
اور اسکا فائدہ کیا ہوگا؟
اپنے لیئے اور دوسرے کیلئے سچائی اور حق کا علم بُلند کر کے اللہ کے ہاں مأجور ہوں کیونکہ جس نے کسی نیکی کی ابتداء کی اُس کیلئے اجر، اور جس نے رہتی دُنیا تک اُس نیکی پر عمل کیا اُس کیلئے اور نیکی شروع کرنے والے کو بھی ویسا ہی اجر ملتا رہے گا۔
لوگوں میں نیکی کرنے کی لگن کی کمی نہیں ہے بس اُن کے اندر احساس جگانے کی ضرورت ہے۔ قائد بنیئے اور لوگوں کے احساسات کو مُثبت رُخ دیجیئے۔
اگر کبھی اچھے مقصد کے حصول کے دوران لوگوں کے طنز و تضحیک سے واسطہ پڑے تو یہ سوچ کر دل کو مضبوط رکھیئے کہ انبیاء علیھم السلام کو تو تضحیک سے بھی ہٹ کر ایذاء کا بھی نشانہ بننا پڑتا تھا۔.!
اقتباس حاجی سلیم صاحب- 28 مئی 2012
 ____________________________________________________ 
 
بی ۔اے پنجاب یونیورسٹی طلباء و طالبات کے لیئے
سمندر اور بوڑھا (The old man and the sea) ہیمنگوئے 
وہ شہر آفاق ناول ہے جو کیوبا میں 1951 میں لکھا گیا اور ایک برس بعد منصۂ شہود پر آیا۔ یہ وہ آخری اہم ترین ادبی تخلیق تھی جو ہیمنگوئے کی زندگی میں ہی شائع ہوئی۔

پس منظر

ناول کی کہانی انسان کے عزم و ہمت کی داستان ہے۔ وداع جنگ کی اشاعت کے بعد دس برس تک اس کا کوئی اہم تخلیقی کام نہیں اآسکا۔ ایک عشرے پر محیط اس تخلیق بنجر پن کے دور کے بعد جب اس کا ناول Across the river and into the trees شائع ہوا تو نقادوں نے اس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کتاب میں ہیمنگوئے نے دوسری جنگ عظیم میں اخباری نمائندہ کے طور پر حاصل ہونے والے تجربات کو اس انداز میں جس طرح کہ اس نے جنگ اول اور اسپین کی سول جنگ سے حاصل ہونے والے تجربات کو ناول کی صورت میں کامیابی سے ڈھالا تھا اس کو ناکامی ہوئی۔ بوڑھا اور سمندر کو عدیم النظیر پذیرائی حاصل ہوئی۔1953 میں اسے پلٹزر پرائز کا انعام نوازا گیا اور اس سے اگلے ہی برس اسے نوبل انعام بھی دیا گی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور پاکستان کے انگریزی سلیبس میں ارنسٹ ہیمنگوے کے اس ناول کو ایک اہم جزو قرار دیا جاتا ہے۔  

کہانی

یہ ایک گھاگ اور تجربہ کار ماہی گیر سانتیا گو کے عزم کی کہانی ہے جو کیوبا کی بندر گاہ ہوانا کے قریب سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کا کام کرتا ہے چوراسی دن تک کسی بھی مچھلی کو پکڑنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اس کی تیرہ بختی کے پیش نظر اس کے شاگرد نیک دل منیولن کو اس کے والدین نے بوڑھے سانتیا گو کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا اور کسی کامیاب مچھیرے کے ساتھ وابستہ ہونے کا حکم دیا۔ پچاسویں دن سانتیا گو نے لڑکے مینولن سے کچھ چھوٹی مچھلیاں لیں اور روانہ ہوا ۔ بوڑھے کو خود کلامی کی عادت تھی۔ بوڑھا بلا آخر مچھلی پھانسنے میں کامیاب ہو ہی گیا ، مچھلی اتنی تھی کہ وہ خود کو اسے کھنچنے سے معذور پاتا تھا ۔ سورج غروب ہو گیا لیکن مچھلی اپنے سفر پرگامزن رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ بوڑھا بھی محو سفر رہا۔ وہ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا کہ مچھلی میں آخر دم تک تیرے ساتھ رہوں گا اور تیرا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا ۔ اگلی صبح اس کی ڈوری کو جھٹکا لگا اور وہ گھٹنوں کے بل کشتی میں جا گرا ۔ اس کے ہاتھ سے خون بہہ نکلا اس نے مچھلی کو اس وقت دیکھا، جب وہ ایک دم اچھلی اور دوبارہ پانی میں چلی گئی۔ بوڑھے کو مچھلی کے شکار میں بڑی ہی مشکلات کا سامنا بھی رہا لیکن اس نے کسی بھی لمحے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اس کو زیر دام لانے کی جستجو کرتا رہا۔ بے شمار مشکلات کے بعد جب وہ شکار میں کامیاب ہوتا ہے اور جنگ جیت جاتا ہے ، وہ ڈوری کی مدد سے مچھلی کو کشی کے ساتھ باندھ کر جس کے بارے میں اس کا خیال تھا اس کا وزن کم از کم ڈیڑھ ہزار پونڈ وزنی ہوگا، شاداں و فرحاں گھر کو روانہ ہوا اس دوران ایک خونخوار شارک نے مچھلی پر حملہ کیا اور اس کا گوشت نوچنا شروع کر دیا۔ بوڑھنے نے نیزہ اس کے سر پر دے مارا شارک الٹ تو گئی لیکن اس کے ہاتھ سے نیزہ اوررسی بھی گئی دو گھنٹے کے بعد مزید شارکوں نے مچھلی پر حملہ کر دیا ۔ بوڑھے نے چپو کے ساتھ تیز دھار والا چاقو باندھا اوران سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار ہوگیا۔ بوڑھا ان تمام شارکوں کو ختم کرنے میں کامیاب تو ہوا لیکن اس وقت تک وہ مچھلی کا ایک تہائی حصہ کھا چکی تھیں۔ بوڑھا غمگین تھا اوراس کی محنت ضائع ہو رہی تھی۔ رات کو شارکوں کی ایک بڑی تعداد نے بچی کچی مچھلی پر حملہ کر دیا ان کا مقابلہ کرنا تو سانتیا گو کے لیے کسی بھی طور پر ممکن نہ تھا اس نے چارو ناچار اس کے سروں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دئیے۔ اس دوران وہ ایک ڈنڈے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ بوڑھے کو شکست کا احساس ہوا اور وہ کشتی چلانے لگا ۔ رات کے آخری حصے میں شارکوں نے مچھلی کے ڈھانچے پر حملہ کر دیا اور اس کے جسم کا تمام تر گوشت نوچ کر لے گئیں۔ تھکا ہارا بوڑھا جھونپڑی میں پہنچا اورسو گیا۔ساحل پر دوسرے ماہی گیر حیرت سے بوڑھے کی کشتی اور مچھلی کے عظیم پنجر کو دیکھ رہے تھے ۔ 
اردو زبان میں اس ناول  کا ترجمہ ممتاز مترجم شاہد حمید نے کیا۔
____________________________________________________ 
 
7 Habits of Highly Effective People ever selling book by
(Stephen R. Covey)

دنیا کے انتہائی موثر ترین لوگوں کی نوٹ کی گئی سات عادات۔
Habit 1: Be Proactive

پہلی عادت۔وہ کسی بھی کام کے لیئے پہلے سے ذہنی طور پر تیاری کرلیتے ہیں۔
Habit 2: Begin with the End in Mind

دوسری عادت۔وہ کسی بھی کام کا آغاز کرنے سے پہلے اس کے انجام کو ذہن میں رکھتے ہیں
Habit 3: Put First Things First

تیسری عادت۔وہ کاموں میں درجہ بندی کرتے ہوئے جو کام پہلے کرنے والے ہوتے ہیں انہیں پہلے سرانجام دیتے ہیں۔
The Next Three are to do with Interdependence

اگلی تین عادات ایک دوسرے پر منحصر کرتی ہیں۔

Habit 4: Think Win/Win

چوتھی عادت۔ایک ایسا راستہ اپنا لینا کہ بغیر کسی نقصان کے کام بھی ہو جائے اور تصادم بھی نہ ہواور دونوں کا فائیدہ بھی ہو۔
Habit 5: Seek First to Understand, then to be Understood

پانچویں عادت۔سب سے پہلے سمجھا جائے پھرسمجھایا جائے۔
Habit 6: Synergize

چھٹی عادت۔مسائل کا حل تلاش کرنا اور ٹیم ورک کے ساتھ کام کرنا۔
The Last habit relates to self-rejuvenation;

آخری عادت  پچھلی چھ عادات کو دوبارہ دہرانے کا عمل ہے۔
Habit 7: Sharpening the Saw

ساتویں عادت۔ پچھلی چھ عادات کو دہراتے رہنااور ان کی مشق کرتے رہنا، کیونکہ مستقل مزاجی سے بڑے بڑے میدان جیت لیئے جاتے ہیں اور اسی میں یقینی کامیابی ہے۔